سعودی عرب نے لبرل ہونے کا عزم کر لیا
ہمارے دیس میں اس بات پر ہی رجعت پسند حلقوں میں دہائی پڑی ہوئی تھی کہ وزیراعظم نواز شریف صاحب نے فرما دیا ہے کہ ملک کی فلاح لبرل ہونے میں ہے، کہ ادھر سعودی عرب کے بھی لبرل ہونے کی خبریں آنے لگی ہیں۔
سعودی عرب کو دنیا کے تنگ نظر اور انتہا پسند ترین ملکوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ان ممالک میں سے ہے جس نے دنیا سب سے آخر میں غلاموں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی۔ غلامی پر سعودی عرب میں 1962 میں پابندی لگی۔ اس ملک میں کوئی خاتون ڈرائیونگ نہیں کر سکتی ہے۔ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کہیں آ جا نہیں سکتی ہے۔ 1979 کے بعد سے لباس کی بہت زیادہ سختی کی جاتی ہے اور شرعی پولیس مرد و زن سے کسی وقت بھی لباس کے معاملے پر مار پیٹ کر سکتی ہے تاکہ وہ سدھر جائیں۔ مرد و زن کا اختلاط قابل گرفت ہے۔
دنیا میں اسلام کے نام پر موجود دہشت گردی کا الزام بھی سعودی انتہاپسند مذہبی تعلیمات کو دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے بڑے مغربی اتحادی بھی اب اس سلسلے میں اس کا نام سرعام لینے لگے ہیں۔
یہ غالباً واحد ملک ہے جہاں ابھی بھی سر کاٹ کر سزائے موت دی جاتی ہے اور چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں۔ اسلامی احکامات کی لغوی اور تنگ نظر تشریح کی بنیاد پر اس ملک کا نظام چلتا ہے۔
ابھی کچھ عرصے پہلے سنہ 2013 میں اس ملک نے سالانہ ثقافی میلے میں شریک ہونے والے متحدہ عرب امارات کے نوجوان فنکاروں کو اس وجہ سے ملک سے نکال دیا تھا کہ ان کا حسن و جمال کمال کا بیان ہوا تھا اور سعودی حکام کو خدشہ تھا کہ سعودی عورتیں اور مرد ان اماراتیوں کے عشق کا شکار نہ ہو جائیں۔ عمر برکان الغلا اور ان کے تین ساتھیوں کا حسن و جمال سعودی عرب کی مذہبی پولیس نے دیکھا تو ان کو ملک سے باہر نکال دیا۔ پتہ نہیں یہ پولیس خوبصورت سعودی شہریوں کا کیا کرتی ہو گی۔
اسی سال امارات کی مشہور گلوکارہ شمع ہمدان، سعودی دارالحکومت ریاض کی ایک محفل موسیقی میں پرفارم کر رہی تھیں کہ مذہبی پولیس کا چھاپہ پڑا۔ شمع ہمدان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں مگر آرگنائزر اس چھاپے میں پکڑے گئے۔
تو ایسے میں جب سرکاری ترجمان سمجھے جانے والے اخبار سعودی گزٹ میں اچانک یہ خبر آئے کہ سعودی دارالحکومت ریاض میں نیویارک کا مشہور تھیٹریکل گروپ، ایلومینیٹ موسیقی کا ایک کنسرٹ کر رہا ہے جس میں لڑکے لڑکیاں ایک مخلوط ماحول میں شریک ہوں گی، تو حیرت ہونی چاہیے۔
ایک تاریک سٹیج پر ایلومینیٹ کے برقی روشنیوں سے پیراستہ رقاصوں نے پرفارم کیا۔ شہزادی نورہ بنت عبدالرحمان یونیورسٹی کے کنونشن ہال میں مرد و زن پہلو بہ پہلو بیٹھے اور یہ شو دیکھتے رہے۔ شو کا ٹکٹ تیرہ سو روپے سے لے کر چوبیس ہزار روپے تھا۔
نائب ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، جو کہ وزیر دفاع بھی ہیں، ویژن 2030 نامی اس معاشی اور معاشرتی تبدیلی کے پلان کے روح رواں ہیں جو کہ انہوں نے اپریل میں پیش کیا تھا تاکہ سعودی معیشت کا تیل پر سے انحصار ختم کیا جا سکے۔ اس کے اہداف میں سیاحت اور ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ بھی شامل ہے۔
ویژن 2030 یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ ”ہم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تہذیبی سرگرمیاں اور تفریح و تماشے کے مواقع اس وقت اتنے زیادہ نہیں ہیں جو کہ ہمارے شہریوں اور رہائش پذیر افراد کی بڑھتی ہوئی تمناؤں کی آبیاری کر سکیں“۔
احمد الخطیب، جو کہ تفریح و ثقافت کی اتھارٹی کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ ایک پورے سال کے تفریحی پروگراموں کا ٹائم ٹیبل بنانا چاہتا، جس میں ہر ویک اینڈ پر شہریوں کے تین چار جگہوں پر جانے کی آپشن موجود ہو۔ ”انشا اللہ آگے آگے اس سے بڑی چیزیں بھی ہوں گی“، انہوں نے فرمایا۔ آثار یہی ہیں کہ ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب نے لبرل ہونے کا عزم کر لیا ہے۔
سعودی عرب کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی انتہاپسندانہ تعلیمات سے متاثر ہو کر اس کے اپنے نوجوان بھی داعش وغیرہ جیسی تنظیموں کی طرف راغب ہو کر سعودی عرب میں خودکش حملے کرنے لگے ہیں۔ اسے اب اپنی نوجوان نسل کو اس انتہاپسندی سے بچانے کا چیلنج بھی درپیش ہے جسے وہ 1979 سے انتہاپسند بناتی رہی ہے۔ اسی مقصد کی خاطر اب سعودی عرب اپنی اس نئی نسل کو انتہاپسندی سے بچانے کے لئے سید مودودی اور سید قطب سمیت کئی مشہور عالموں کی کتابوں پر پابندی بھی عائد کر چکا ہے، حالانکہ یہی سید مودودی اپنی انہیں کتب کی وجہ سے اسلام کے لئے اپنی خدمات پر سعودی عرب کا شاہ فیصل ایوارڈ پانے والی پہلی شخصیت قرار پائے تھے۔
دوسری طرف سعودی عرب نے بتایا ہے کہ آئندہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے اسلامی کیلنڈر استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ عیسوی کیلنڈر کی بنیاد پر تنخواہیں دی جائیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی کیلنڈر میں 355 اور عیسوی کیلنڈر میں 365 دن ہوتے ہیں۔ یعنی اب یہ ملازمین سال میں دس دن مفت میں کام کریں گے اور حکومت کی پیسہ بچے گا۔ سعودی عرب اپنے ملازمین و حکام کی تنخواہوں میں کٹوتی بھی کر رہا ہے تاکہ چار پیسے بچ سکیں۔
ایران اور روس کو سزا دینے، اور امریکی شیل آئل کمپنیوں کو فیل کرنے کی خاطر، سعودی عرب تیل کی اضافی پیداوار پر بضد تھا تاکہ تیل کی قیمتیں گریں یہ یہ ممالک اور کمپنیاں شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں۔ مگر ایسا ہوا کہ وہ ملک تو ٹکے رہے، مگر سعودی عرب کی اپنی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ اوپر سے اس پر یمن اور شام کی جنگ کا بے شمار خرچہ بھی پڑ گیا ہے۔ پچھلے سال سعودی عرب نے اندرون ملک تیل کی قیمت میں 80 فیصد اضافہ کر دیا تھا۔ شہری سہولیات پر خرچ میں بھی کمی کی جا رہی ہے۔ مگر پچھلے سال سعودی بجٹ کا خسارہ پھر بھی 98 ارب ڈالر، یعنی تقریباً سو کھرب (درست اردو گنتی میں ایک نیل) روپے تھا۔
تو اب، تیل کی دولت سے محروم ہونے کے بعد سعودی عرب کو اس دنیا کے اصولوں پر چلنا پڑ رہا ہے، معاشرت اور معیشت کو لبرل کرنا پڑ رہا ہے۔ دبئی جیسا ملک جو کہ تیل کے بڑے ذخیرے نہیں رکھتا ہے، محض لبرل معیشت و معاشرت کی بنیاد پر ایک خوشحال ملک بن چکا ہے۔ لگتا ہے کہ سعودی عرب نے اب دبئی کی تقلید شروع کر دی ہے۔
سچ ہی کہا ہے گوروں نے، جب بات پیسے کی ہو، تو سب کا مذہب ایک ہی ہوتا ہے۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).