انسانی قتل کہاں کی غیرت ہے؟ سندھ کارو کاری کی لپیٹ میں


سندھ میں کاروکاری کی رسم کے ستم برقرار ہے، 10 ماہ کے اندر بشمول 103 عورتیں 36 مرد ٹوٹل 139 لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اگر شرح کی بات کریں گے تو سندھ کے ضلع جیکب آباد میں سب سے زیادہ 32 انسانی جانیں اس رسم کی نذر ہوئیں۔ ایک نجی تنظیم کی سرورے رپورٹ کے مطابق کافی تعداد میں ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ جن کو برادری اثر رسوخ استعمال کر کے دبایا گیا تھا، سندھ میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اس متحرک تنظیم ”سندھ سہائی ستھ“ کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ دھاریجو، نامور ادیب ادل سومرو، قانون دان ہادی بخش بھٹ، اور دوسروں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم کی سروے رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2019 تک شھر شھر اور گاؤں گاؤں کی گئی سروے کے مطابق کاروکاری کا جواز بنا کر 139 جانیں موت کے گھاٹ اتاردی گئیں ہیں۔

جن میں سے 103 عورتیں اور 36 مرد شامل ہیں ٹوٹل 139 مرد و خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سارے کیسز جو ظاہر ہوئے اکثریت ان کی ہے جو رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ انہوں نے مزید انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ اکثر علاقوں میں ذاتی جھگڑے، زمیں کی مالکی، جیسے مسائل میں دوسرے کو برادری طور پر نیچا دکھانے اور وہ ملکیت ہتھیانے کے لئے بھی اپنی عورتوں کو جھوٹا الزام لگا کر قتل کرتے ہیں۔

ایسے جرم میں مقامی جاگیر دار اور قبائلی سردار شامل ہیں، اور پولیس بھی برابر کی حصہ دار ہوتی ہے۔ سندھ میں سب سے زیادہ ضلع جیکب آباد میں 32 لوگ اس رسم کی نذر ہوئے۔ جس میں 22 عورتیں اور 10 مرد شامل ہیں۔ دوسرے نمبر پر شکار پور ہے جس میں بشمول 19 عورتوں سمیت 25 قتل ہوئے۔ کشمور میں 20 عورتوں اور 3 مردوں کو کارو کاری الزام کے تحت قتل کیا گیا۔ سکھر میں 11 عورتیں ایک مرد، جب کہ گھوٹکی میں 7 عورتوں 1 ایک مرد کو کاروکاری الزام تحت قتل ہوا۔

مجموعی طور پر دس ماہ میں 103 عورتوں اور 36 مردوں، ٹوٹل 139 انسانی زندگیوں کو اس غیرانسانی رسم کے تحت قتل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ دھاریجو کا مزید کہنا تھا کہ عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے 21 عورتوں کو کاروکاری رسم میں قتل ہونے سے بچایا ہے۔ جب کہ جنسی تشدد، رشتہ داروں اور سماج کے ظلم کا نشانہ بننے والی 21 عورتوں کو قانونی مدد فراہم کی، اور جو کیسز چل رہے ہیں۔ ایسے کیسز میں شکارپور کی سیمہ کھوسو، ملوکاں شیخ، خیرپور کی رمشا وسان، انیتا اوڈ، پنوعاقل کی مینا اوڈ، سکھر کی افسانہ سمیجو، اور دوسری عورتوں کے کیسز شامل ہیں۔

جن کو انصاف دلانے تک تنظیم چین نہیں لے گی، سماجی تنظیم کی وکیل فرزانہ کھوسو کا کہنا تھا کہ سندھ کے اندر دس ماہ میں 18 بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جن میں سے اکثر کو قتل کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جن کو پولیس کے ذریعے بچایا گیا۔ جن کی تعداد 21 ہے، سندھ اس وقت کارو کاری کے لپیٹ میں ہے حکومت کو چاہیے کہ اس رسم کے خلاف کوئی بڑا سخت قانون بنایا جائے جس سے سندھ میں خواتین و مرد اس رسم سے بچ سکے نہیں تو ہر آئے روز انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا سلسلہ رک نہیں سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).