کرتار پور سے بابری مسجد تک


کل کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب کے موقع پر بھارت اور دوسرے ممالک سے آئے سکھ یاتریوں کا مذہبی جوش و خروش اور نوجوت سنگھ سدھو کی شعر و شاعری سے مزیّن جذباتی تقریر سن کر ابّا جی مرحوم بہت یاد آئے۔ سدھو سمیت بہت سے سکھ حکومتِ پاکستان، خاص طور پر عمران خان کا شکر یہ ادا کر رہے تھے کہ ان کی بدولت پاکستان میں موجود ہمارے ”مکے“ اور ”مدینے“ یعنی کرتار پور تک آسان رسائی کا ہمارا 72 سالہ خواب آج پورا ہو گیا۔ ابّا جی مرحوم بھی اسی طرح کا ایک خواب دیکھتے تھے اور دل میں یہ خواہش رکھتے تھے کہ کاش وہ اپنے پرانے وطن میں اپنا پرانا گاؤں ”گھڑیالہ“ دیکھ سکیں۔

1947 میں تقسیم کے وقت ”گھڑیالہ“ ضلع لاہور کا ایک گاؤں تھا اور یہ قصور شہر سے 15 سے 18 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ابّا جی بتایا کرتے تھے کہ یہ ایک بڑا گاؤں تھا اتنا بڑا کہ اس کے آٹھ نمبردار تھے۔ کچھ عرصہ پہلے یو ٹیوب پر گھڑیالہ کے ایک بزرگ کا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس کے بقول اس کے تیرہ نمبردار تھے۔ یاد رہے کہ عام طور پر ایک گاؤں میں ایک ہی نمبردار ہوتا ہے۔ آٹھ یا تیرہ نمبرداروں سے اس گاؤں کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

گھڑیالہ کے اس بزرگ کے مطابق ہجرت کے بعد اس گاؤں کی آبادی پاکستانی پنجاب کے پچاسی گاؤوں میں آباد ہوئی۔ یہ گاؤں قصور امرتسر ریلوے ٹریک پر واقع تھا اور جب ٹرین یہاں سے گزرتی اور گاؤں سے گزرتے وقت کافی وقت لیتی تھی۔ اس کی زیادہ تر آبادی مسلمان سندھو جاٹوں پر مشتمل تھی آٹے میں نمک کے برابر سکھ گھرانے تھے جو زیورات بنانے کا کام کرتے تھے۔ ضلع لاہور کا حصہ اور مسلمانوں کی اکثریت کی وجہ سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ علاقہ ہندوستان میں شامل ہو گا۔

گورداسپور کی طرح ریڈ کلف کا بھارت نواز تقسیم کا کلہاڑا یہاں بھی چلا اور غالباً چند اہم ہیڈورکس بھارت کی جھولی میں ڈالنے کے لیے ضلع لاہور کے مسلم اکژیت کے چار تھانے کاٹ کر بھارت کے حوالے کر دیے گئے۔ ابّا جی کا گاؤں گھڑیالہ بھی اسی نا انصافی کا شکار ہو کر لاہور کی بجائے بھارتی پنجاب کے ضلع امرتسر کا حصہ بن گیا۔ آج کل یہ امرتسر کی بجائے ضلع ترن تارن کا حصہ ہے۔

گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح ہمارے خاندان کو بھی ہجرت کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں، جانیں تو محفوظ رہیں لیکن مال و اسباب کی قربانی دینا پڑی جو اس قیامت کی گھڑی میں ان لوگوں کے مقابلے میں اتنی بڑی قیمت نہیں تھی جنہوں نے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ جانوں اور عزتوں کی بھی قربانی دی تھی۔ ضلع گورداسپور سے ہجرت کرنے والے ہمارے بہت ہی قریبی رشتہ داروں نے البتھ مال کے ساتھ ساتھ جانوں کی قربانی دے کر اس نئی مملکت کی بنیادوں میں اپنے لہو کا حصہ ڈالا۔

ابّا جی نے آٹھویں جماعت تک تعلیم گھڑیالہ میں ہی حاصل کی تھی۔ ان کا بچپن اور لڑکپن وہیں گزرا تھا، ہمارے دادا جان، دادی جان اور دوسرے بہت سے رشتہ داروں کی قبریں بھی گھڑیالہ میں تھی، یوں گھڑیالہ سے ان کی حسین یادیں وابستہ تھیں۔ گھڑیالہ ان کے دل سے کبھی نکل نہیں سکا۔ وہ زندگی میں ایک بار پھر گھڑیالہ کو دیکھنا چاہتے تھے اور سوچتے تھے کہ شاید کبھی پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات اتنے اچھے ہو جائیں کہ وہ قصور شہر سے محض 15 کلو میٹر دور اپنے اس پرانے گاؤں کو دیکھ سکیں۔

سرحدی گاؤں ہونے کی وجہ اور وہاں جانے والے پاکستانیوں کے ساتھ بھارت کے ناروا سلوک کی کہانیوں نے ایک خوف کی سی کیفیت میں مبتلا کر رکھا تھا، اس لیے وہاں جانے کے لیے والد صاحب ایک اچھے وقت کا انتظار کرتے رہے، مگر افسوس وہ اچھا وقت ان کی زندگی میں نہ آ سکا اور وہ اپنی اس خواہش کو پورا کیے بغیر 2016 میں انتقال کر گئے۔

کل جب نوجوت سنگھ سدھو نے جذباتی ہو کر کہا کہ ہمارے مذہب کے بہت سے لوگ کرتار پور کی یاترا کی خواہش رکھنے کے باوجود یہ چند کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے تھے اور اس خواہش کو پورا کے بغیر اس دنیا سے چلے گئے یاد آیا کہ والد صاحب بھی اپنی جنم بھومی کے لیے ایسی ہی خواہش رکھتے تھے۔ ابّا جی کی خواہش تو پوری نہ ہو سکی، لیکن اب ہم اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ شاید کبھی ہندوستان اور پاکستان کے حالات ایسے ہو جائیں کہ ہم اپنے بزرگوں کا پرانا وطن دیکھ پائیں۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے لیکن بابری مسجد کے بارے میں بھارتی سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے نے بہت مایوس کیا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ والد مرحوم کی طرح ہم بھی صرف اچھے وقت کا انتظار ہی کرتے رہیں گے، وہ اچھا وقت آئے گا نہیں۔

کیا عجیب اتفاق ہے کہ کل پاکستان نے ہندوستان اور پوری دنیا کے سکھوں کے لیے ایک ایسی خوشی کا دن بنا دیا جس کا وہ صرف خواب ہی دیکھا کرتے تھے اور بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ ہندؤوں کو دے کر بھارت اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).