ٹرین میں آگ دہشت گردی تھی۔


کہتے ہیں جو بندہ نہر سے پار کھڑا ہو کر گالی بکے یا منہ پر جھوٹ بول دے اس کا اپ کچھ نہیں کر سکتے۔ رحمان ملک کے بارے مشہور تھا کہ کیلا کھا رہا ہو تو بتاتا سیب ہے۔ ملک صاحب کو شاید کیلے کا ذائقہ پسند تھا لیکن شکل اچھی نہیں لگتی ہو گی یا پھر سماچی مرتبہ کیلے کھانے سے کم نظر آتا ہو گا۔ خیر مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ جو لوگ جھوٹ نہیں بولتے وہ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ سچ بولنے والے تو بہت ہی کٹھور اور غیر وضع دار لوگ ہوتے ہیں۔

ٹی ایس ایلیٹ کہتے ہیں انسان بہت زیادہ سچ برداشت نہیں کر سکتا۔  مجھے تو سچے لوگ دوسروں کو اذیت دے کر خوش ہونے والے لگتے ہیں۔ سچ ہمیشہ خود سے بولنا چاہے یا اس سے جو آپ کو سخت ناپسند ہو۔ جھوٹ عملی زندگی میں اور سفید جھوٹ بیویوں کے سامنے۔  یقین کیجیے زندگی گل و گلزار ہو جائے گی البتہ جھوٹ ایک فنکارانہ انداز سے بولا جانا چاہیے حتی کہ اپ خود بھی اس جھوٹ پر ہی یقین رکھتے ہوں۔ اکثر صحافی حضرات ایک چالاکی کرتے ہیں اور کسی سیاستدان کے ساتھ کی گئی گفتگو میں ایک رازداں کا ذکر کر دیتے ہیں کہ فلاں بھی وہاں موجود تھا اور اس کے بعد گفتگو کو اپنا رنگ چڑھا دیتے ہیں۔

مثلا خواجہ سعد رفیق نے بارہ خراب انجن مقتدر حلقوں کے اصرار پر منگوائے، احمد شجاع پا شا اور سیف الرحمن نے زرداری صاحب سے معافی مانگی وغیرہ وغیرہ۔ ظفر صاحب تو کہتے ہیں کہ جھوٹ بول کر اس پہ قائم رہنا صاحب کردار ہونے کی نشانی ہے لیکن جھوٹ بولنے والے کے پاس کردار کی پاسداری کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود بھی نہیں ہوتا ماسوائے اس کے کہ وہ جھوٹ پہ جھوٹ بولتا چلا جائے۔ محمکہ زراعت کے ہاتھوں پٹائی کے بعد ایسے جھوٹ سے پالا پڑتا ہے۔

ہمارے ہاں آگ لگنے پر ہمیشہ جھوٹ بولے گئے ہیں اور اگر جھوٹ بولنے والا شیخ رشید ہو تو فیر اک تے سوہنی اتوں ستی اٹھی(ایک تو خوبصورت اوپر سے سوی اٹھی)۔ شیخ صاحب جھوٹ بول کر بڑی ڈھٹائی سے قائم بھی رہتے ہیں لیکن چنی گوٹھ میں بوگیاں جلنے کو ایک گھنٹے کے اندر اندر سیلنڈر پھٹنے سے جوڑ کر بچ نکل کر گویا انہوں نے جھوٹ قوم کی بغل میں گھسیڑ دیا ہے۔

اگر اپ کو بلدیہ ٹاؤن فیکڑی والا واقعہ یاد ہو جس میں لوگوں کو اپنی جگہ سے ہلنے کا بھی موقع نہیں ملا تھا اور ڈھائی سو لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے تو اس آگ کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔

پہلی بات تو یہ کہ سیلنڈر سے پھیلی آگ اتنی تیزی سے نہیں پھیلتی کہ کسی کو ہلنے جلنے کا موقع ہی نہ ملے اور دوسری بات یہ کہ آگ بوگیوں کے باہر بہت شدید تھی حالانکہ ٹرین میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے آگ اتنی تیزی سے رفتار پکڑتی۔ ٹرین میں رنگ ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو آگ پکڑتا ہے لیکن یہ آگ بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے کوئی پانبڑ نہیں بلدے۔ زیادہ سے زیادہ سیٹ کے پوشش جلتے ہیں اور وہ جل کر سکڑ جاتے ہیں۔ آگ کو بڑھاوا نہیں دیتے۔

ساری بوگیوں کا یعنی چاروں بوگیوں کا زد میں آ جانا اور مسافروں کا بھاگ دوڑ نہ کرنا، آگ کا بیک وقت تینوں بوگیوں کو لپیٹ میں لے لینا اور آگ کا باہر کی طرف پانبڑ بن کر دیکھنا (مجھے پانبڑ کی اردو نہیں آتی) غیر معمولی واقعات ہیں۔ مسافروں نے زنجیر کھینچی لیکن ٹرین رک نہیں سکی لیکن کسی بھی مسافر نے ٹرین کے آہستہ ہونے پر باہر چھلانگ نہیں لگائی۔ اگر زنجیر کھینچنے کا ٹائم ملا تھا تو ان بوگیوں کی طرف بھی بھاگتے جہاں آگ نہیں پہنچی تھی۔

اب تو ٹرین میں ایک بوگی سے دوسری بوگی میں جانے کے لئے اندر ہی راستے بنے ہوئے ہیں لیکن بد قسمت مسافر بیٹھے بیٹھے ہی خاکستر ہو گئے اور شیخ صاحب نے انکوائری ریلوے پولیس کے سپرد کر دی جو کہ خود کسی بھی قسم کی باضابطہ دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ یہ واقعہ بلدیہ ٹاؤن کی طرز پر دہشت گردی کا ایک واقعہ ہے۔ یہاں ایسا کیمکل استعمال ہوا ہے جس نے غیر معمولی طور پر آگ بھڑکائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).