برطانیہ میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا مجرم پاکستان میں سرکاری ملازم کیسے بنا؟


پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پولیس نے بچوں سے زیادتی کے ایک ایسے شخص کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے جو برطانیہ میں ایک بچے سے زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر چار سال قید کی سزا بھگت چکا ہے۔

سنہ 2009 میں جب سہیل ایاز کے خلاف مقدمے کی کارروائی ہوئی تو یہ پایا گیا کہ ان کا جرم صرف ان تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک بین الاقوامی گروہ کا حصہ تھے۔

دس سال بعد انھیں پاکستان میں اسی جرم کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے، ایک ایسے وقت جب وہ نہ صرف ایک عام شخص کے طور پر زندگی دوبارہ شروع کر چکے ہوتے ہیں، بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے سول سیکریٹریٹ میں ملازم بھی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں سے زیادتی کے سنگین جرم میں ملوث ایک سزا یافتہ شخص کیسے ہماری نظروں سے بچا رہا اور یہاں تک کہ سرکاری ملازمت بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہا جس کے لیے اکثر کئی بیک گراؤنڈ چیک کیے جاتے ہیں؟

دنیا کے کئی ممالک میں اس مسئلے کے تدارک کے لیے سیکس اوفینڈر رجسٹری نامی ایک فہرست مرتب کی جاتی ہے جس میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔

اس فہرست میں شامل افراد پر کئی طرح کی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں مثلاً انٹرنیٹ کا استعمال، سکولوں یا ڈے کیئر سینٹرز کے پاس رہائش، بچوں کے پاس موجودگی وغیرہ وغیرہ، تاکہ خاص طور پر بچوں کے خلاف اس طرح کے جرائم کا انسداد کیا جا سکے۔

اب جبکہ راولپنڈی پولیس کے مطابق ملزم سہیل ایاز نے دورانِ تفتیش 30 سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں کسی سیکس اوفینڈر رجسٹری کی موجودگی کی صورت میں اس جرم کو روکا جا سکتا تھا؟

بی بی سی نے اس حوالے سے ماہرین سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن اور قانون دان رانا آصف حبیب اس حوالے سے تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ ڈی پورٹ ہونے والے اس شخص کا ریکارڈ پاکستان میں اب تک کیوں اعلیٰ سطح تک نہیں پہنچایا گیا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر ڈی پورٹ ہونے والے شخص کے ساتھ مکمل دستاویزی ثبوت ہوتے ہیں کہ انھیں کیوں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے امیگریشن ڈیٹا کو اگر مرتب کر کے تمام سرکاری اداروں کے لیے قابلِ رسائی رکھا جاتا تو دیگر ممالک سے جرائم کر کے پاکستان آنے والے افراد پر نظر رکھنی ممکن ہو سکتی ہے۔

سیکس اوفینڈر رجسٹری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی مرکزی ڈیٹابیس موجود نہیں ہے جو جنسی جرائم میں ملوث شخص کی نشاندہی کر سکے اور ان پر مسلسل نظر رکھ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ اگر مجرمان کے ڈیٹا کے تبادلے کے دو طرفہ معاہدے ہوں تو اس طرح کے واقعات کو مزید روکا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کے حوالے سے تمام سرکاری اداروں کی تربیت ہونی چاہیے تاکہ ان میں اس حوالے سے حساسیت پیدا ہوسکے۔

جنسی زیادتی، سہیل ایاز، راولپنڈی
دنیا کے کئی ممالک میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے سیکس اوفینڈر رجسٹری سمیت فارینسک سائیکاٹری کا استعمال کیا جاتا ہے

بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی پاکستانی تنظیموں پر مشتمل ادارے چائلڈ رائٹس موومنٹ (سی آر ایم) کے نیشنل کوآرڈینیٹر ممتاز گوہر بھی رانا آصف حبیب کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قصور میں زینب کے قتل کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ یہ ’ٹیسٹ کیس‘ ثابت ہوگا اور اس طرح کے جرائم کی روک تھام اور ان کے ارتکاب پر سخت سزاؤں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی مگر کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر زینب الرٹ بل متعارف تو کروایا گیا مگر یہ اب تک منظور نہیں ہو سکا ہے۔ یہ اور اس کے علاوہ دیگر قانونی سقم دور کرنے سے ہی اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔

ممتاز سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں اب فارینسک سائیکاٹری کے ذریعے مجرموں کا نفسیاتی تجزیہ کر کے وہ وجوہات جانی جاتی ہیں جن کی بنا پر وہ ایسے جرائم پر آمادہ ہوتے ہیں، وہیں پاکستان میں اب تک یہ تصور ناپید ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر مجرموں کی نفسیات کا تجزیہ کیا جائے تو کئی باتیں واضح ہوسکتی ہیں جن میں انھیں اس جرم پر مائل کرنے والے عوامل اور ان کے دوبارہ جرم کرنے کے امکانات شامل ہیں، جنھیں پرکھ کر انھیں خصوصی ڈیٹابیس کا حصہ بنانا چاہیے۔

اس سے ان کے مطابق اس طرح کے لوگوں پر نظر رکھنے میں مدد ملے گی جس سے جنسی جرائم کی شرح میں کمی آ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp