کل کے حواری آج کے جواری


پگڑی، عمامہ یا دستار کو تعظیم، عزتِ نفس، جرأت، روحانی پاکیزگی اور پرہیز گاری کا نشان تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا کے لفظی معنی ہمارا سربراہ یا مالک کا ہے۔ اب مالک تو صرف وہی ذات ہے جو مخلوق کی خالق ہے۔ واحدہے، یکتا ہے، اس کا کوئی ہم سر نہیں۔ ذرا سوچیے! کوئی ذی روح کسی انسان کو مالک کیوں کر ہوسکتا ہے؟ ہاں! سربراہ کہا جاسکتا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اپنے سرِدست لوگوں کو جنھیں وہ کارکن اور سردینے والوں کی فہرست میں مشمول رکھتے ہیں انھیں گمراہ کریں یا سیدھے رستے پر لے جائیں۔

وہ تمام کارکن اور پیروکار جن کو نہ ابتدا کی خبر ہے ناں انتہا معلوم ہے بس ایک اندھا جنون ہے جو انھیں تقلید کی راہ پر لیے جارہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک ایسی اندھیر گلی میں انٹری پاچکے ہیں جہاں سے شاید دیواریں گرانے کے بعد ہی کوئی راہ دکھلائی دے۔ پچھلی حکومتوں میں دس برس کشمیر کمیٹی کے نام نہاد رہنما رہنے کے باوجود سفارتی سطح پہ کشمیر کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہ کر پائے سوائے تنخواہیں وصول کرنے کے۔

اب کس مُنھ سے موجودہ حکومت پہ تنقید اُٹھاتے ہیں کہ اُنھوں نے کشمیر بیچ دیا۔ مولانا کے مطابق حکومت کو چاہیے تھا سفارتی سطح پہ ملکوں ملکوں جاتے اور مودی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے۔ کوئی آپ سے بھی تو پوچھے کہ آپ نے دس برسوں میں ملکوں ملکوں خاک کیوں نہ چھانی اپنی پیلی پگڑی کا بوجھ سر پہ اُٹھائے اس پرہیزگاری کی ٹوکری کو لے کر کیوں نہ اقوام ِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں کشمیر کے حق میں سوال اُٹھائے۔ مولانا سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں آپ کی زبان جل کیوں نہیں جاتی جب آپ پاکستان مخالفت باتیں کرتے ہیں۔

جب آپ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ استعفیٰ نہ ملا توملک میں ہمارے کارکن انتشار در انتشار پھیلائیں گے۔ کیا یہ ہے آپ کی اسلام اور وطن سے محبت؟ یوں بھی مشہور ہے کہ مولوی حضرات حلوے کے شوقین ہوتے ہیں اور جناب اس حلوے میں بادام بھی ہوتے ہیں جو حافظے کے لیے بہت مجرب غذا ہے۔ یاد کیجیے مولانا! آ پ نے 2014 میں عمران خان کے دھرنے پہ اعتراض اُٹھاتے ہوئے فرمایا تھا کہ الیکشن یعنی انتخابات ہی جمہوری طریقہ ہے۔

یہ کوئی جواز نہیں کہ چند جتھے آکر اسلام آباد بیٹھ جائیں اور وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں یہ توناجائز ہے۔ فرمائیے! کیا اب آپ کا مطالبہ جائز ہوگا؟ دراصل اقتدار کا حلوہ وہ حلوہ ہے جو نہ صرف باداموں بلکہ دیگر میوہ جات سے بھرا ہوتا ہے تومُنھ میں پانی بھر آتا ہے اور دل للچا تا ہی چلا جاتا ہے۔ دوسری طرح وزیراعظم مسلسل کہے جارہے ہیں کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ مولانا فرمائے جارہے ہیں کہ ہم تو کشمیر کو نہیں سنبھال رہے تو پھر پاکستان کا کیا مستقبل ہے؟

حضور مولانا! آپ کی جرأت بھی کیسے ہوئی کہ آپ پاکستان جیسی مقدس سرزمین کے بارے میں ایسی منفی بات کریں۔ یاد رکھیے! اس ملک کو جس کسی نے بھی بُری نظر سے دیکھا وہ تباہ ہی ہوا۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ عوام کا سمندر آپ کے ساتھ ہے لیکن صرف وردی برادر کا رکنان کا گروپ آپ کے ہمراہ ہے باقی عوام تو گھروں میں بیٹھے آرام سے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروفِ عمل ہیں۔ یوں بھی ملک کی نصف آبادی کو آپ نے گھروں میں دعائیں کرنے کے لیے بٹھا چھوڑا ہے۔

اپوزیشن کی باقی جماعتیں فی الحال تو مولانا فضل الرحمن کو ہری جھنڈی دکھا کر رفو چکر ہوگئی ہیں۔ مولانا دھرنے کو مسلسل آزادی مارچ کا نام دے رہے ہیں۔ جب کہ وہ اپنے وردی برادروں کے ساتھ دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں۔ کیا دھرنے وغیرہ دینا آئین کا حصہ ہے؟ جواب ہے نہیں۔ اس دھرنے کے اجتماعی براتیوں کو پہلے الیکشن کمیشن میں نوٹس جمع کروانا چاہیے تاکہ آئینی طریقے سے تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جائیں اور معاملات احسن طریقے سے حل ہوں۔

موجودہ صورت ِ حال میں مولاناخود ایک ایسی حالت میں گرفتار ہوچکے ہیں جہاں ”نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن“ اور ایک گُو مگُو کی کیفیت طاری ہے۔ وطنِ عزیز میں انتخابات ہمیشہ ہی دھاندلی کے نعرے کی زد میں رہے ہیں یعنی ہر ہار جانے والی پارٹی جیت جانے والوں کو دھاندلی زدہ الیکشن کہتے ہیں۔ پھر کاہے کی جمہوریت؟ مولانا فرماتے ہیں کہ ہمارے کارکن تو جم کر بیٹھے ہیں اور وہ یہاں سے ہرگز نہیں جانا چاہتے۔ ان سے پوچھیں کہ دھرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئے تو فرماتے ہیں ہمارے لیے من و سلویٰ اُتر رہا ہے۔

نفسیاتی حقیقتوں میں ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ذہنی رویے کو بھی ترتیب دیا جاتا ہے اور اس ذہنی ترتیب کی وجہ سے چیزوں کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ خوش کُن چیزیں بھی دُکھی اور تکلیف دہ نظر آنے لگتی ہیں۔ مولانا تو عجیب منطق گھڑے ہوئے ہیں۔ این آر او کو بھی وہ جمہوری عمل قرا ر دیتے ہیں اور اسے Charter of Democracyکہتے ہوئے مزید تڑکا لگاتے ہیں کہ ایک پارٹی جیتی ہے تو دوسری نے قبول کیا ہے، دوسری جیتی ہے تو پہلی نے قبول کیا ہے۔

صاف الفاظ میں سٹیٹس کو کی بھرپور پذیرائی کررہے ہیں۔ مولانا! اگر اس وقت اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ خطا اور نسیان سے مبرا صرف انبیا کی ذات ہوتی ہے اور اب وہ بھی اسلام آباد آنے کی خطا کر چکے ہیں تو اُنھیں چاہیے کہ نیویں نیویں ہوکر کَن لپیٹ کر واپس چلے جائیں تو عزتِ سادات بھی بچ جائے گی۔ مولانا اب اپنی تقریروں میں مذہب کا رنگ بکھیرنے لگے ہیں۔ عوام تو ووٹ ڈالتے ہوئے صرف یہ جانتی ہے کہ وہ اپنے رہنما کو اپنے حقوق کا پاسدار جانتی ہے۔

لیکن یہ نہیں جانتی کہ سیاست دان کے دل میں نہ تو عوام کے لیے محبت ہے نہ احساس اُس کا مقصود صرف اقتدار ہے۔ کیا عوام کی خواہشات سے تعمیر کردہ جمہور کی بنیادیں اتنی کمزور ہیں کہ ایک سال بھی نہیں گزرنے پاتا کہ دھاندلی زدہ اور ناجائز الیکشن کے شور سے اپوزیشن کے نعروں کی فضا گونجنے لگتی ہے۔ ہر حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عوام سے کیے گئے بلند وبانگ وعدے اگر پورے نہ ہوں تو حالات بدلتے دیرنہیں لگتی۔

سیاست کا بازار تو پوری دنیا میں ہی گرم رہتا ہے اور ہمارے ہاں تو لگتا ہے کہ اب اس میں سٹے بازی بھی ہونے لگی ہے۔ غور سے دیکھیں تو گزرے ہوئے کل کے حواری آج کے جواری نظر آتے ہیں۔ عدالتی نظام کی سُست روی پورے نظام کو لے ڈوبے گی۔ اگر عدلیہ کا نظام تیز تر ہوجائے تو عدالتوں میں رُلتے مقدمات کہیں جلدی ہی اپنے اپنے فیصلوں پہ پہنچ جائیں۔ سیاست اور اس کی اولاد جمہوریت اب ایک کاروبار بلکہ مافیا بنتی جارہی ہے۔

کیا ہم جمہوریت کے بچاؤ کے لیے مستقبل میں اپنی ذمہ داریوں کو قبول کریں گے یا یونہی ماضی پہ ہی الزامات دھرتے رہیں گے۔ یا تو اپوزیشن عمران خان صاحب کو ٹف ٹائم دینے کے لیے دھرنا دے رہی ہے کہ دیکھیں اگر آپ نے 126 دن کا دھرنا دیا تھا تو ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ یا پھر مولانا کا پلان بی یہ ہے کہ جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف علاج کے لیے تشریف لے جائیں گے تو مریم بی بی دھرنے میں آئیں گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس بات کا اجرا کر کے احتجاج کیا جارہا ہے یعنی ملک کی گرتی ہوئی معاشی حالت تو ایسے اندرونی بحران میں مولانا کو پارٹی یا سیاست سے قطع نظر ہوکر سخاوت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تھا۔

لیکن سیاست یقینا طاقت کا نام ہے سچائی کا نہیں۔ ہم گردنوں تک سیاست میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ہم مذاکرات کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ عوام بھی اب تھک چکی ہے، وہ سیاست دانوں کے زبانی کلامی وعدوں سے بھر چکے ہیں۔ عوام کو اب کام چاہیے دعوے نہیں۔ یہ بے وجہ کا انتقام یہ ہر زہ سرائی کیا وطن سے وفاداری ہے، ہرگز نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).