ایک دوسرے کو جھوٹ فارورڈ کرتے ہوئے لوگ


جھوٹ بولنا گناہ نہیں بلکہ فیشن بن چکا ہے۔ ہم سارا دن اسی کام میں مشغول رہتے ہیں۔ عوام سے کیا شکوہ جب سربراہِ مملکت تک دروغ گوئی میں خود کو سربراہ ثابت کرنے پر تلے ہوں۔ موصوف کا ہر دوسرے دن ایک نیاجھوٹ سامنے آتا ہے۔ دو سرے دن اس لیے کہ ہر روز تقریر کا موقع نہیں ملتا۔ اس جھوٹ کو کبھی ہٹلر کی یوٹرن پالیسی کی پیروی قرار دے کر عظیم لیڈرشپ کی تعبیر تراشی جاتی ہے اور کبھی ”سلپ آف ٹنگ“ کی ملمع کاری سے چھپایاجاتا ہے اور ان کے پیروکار رنگ برنگی تاویلیں ایجاد کرکے ماحول کو مزیدمزاحیہ بناتے ہیں۔

خدا جانے وزیراعظم صاحب کس موج میں ہوتے ہیں۔ بارہ ربیع الاول کے مبارک دن کے موقع پر ایک محفل میں فرمایا میں نے ریاست مدینہ کا الیکشن سے پہلے ذکراس لیے نہیں کیا کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں ووٹ لینے کے لیے مذہب کو استعمال کر رہا ہوں۔ لیکن ایک ٹی وی چینل کے ایک ظالم اینکر نے الیکشن سے پہلے کے ویڈیو کلپ ڈھونڈ کر چلا دیے۔ اس کی وضاحت کے لیے مضحکہ خیز تاویلیں نہیں تراشی گئیں، شاید دیگر مصروفیات زیادہ تھیں۔

یہ صرف موصوف ہی پر موقوف نہیں۔ ان کے حلقہ بگوشوں میں بالخصوص اوراور مین سٹریم میڈیامیں بالعموم سستی ذہنیت اورسستی شہرت کے خواہش مندوں کی بھرمار ہے۔ پڑھے لکھے اور باشعور کارکن، جنھوں نے تھوڑی بہت تاریخ پڑھ رکھی ہو یا بطور دلیل کوئی معتبر حوالہ دے سکتے ہوں، ان کے ساتھ آپ بحث بھی کر سکتے ہیں لیکن سطحی ذہنیت کے حامل جذباتی کارکن کہ جن کی معلومات کا ذریعہ صرف میڈیا کے چند اینکرز یا وٹس اپ کے امیجزیا ان جیسوں کی پھیلائی گئی افواہیں ہوں ان سے کیا بات کرنی؟

یہ حالات قوم کی ذہنی حالت کی منظر کشی بھی کرتے ہیں۔ یہ جذباتی کارکن آج کل خاصی پریشانی کا شکار ہیں۔ کچھ تونواز شریف کی بیماری کی وجہ سے پریشان ہیں اور کچھ اس لیے کہ اگر نواز شریف علاج کے لیے باہر چلا گیا تو ہمارے بیانیے کا کیا ہو گا۔ نفرت کاجو بیج ایک ہستی کو اقتدار دلوانے کے لیے بویا گیا تھا اب تناور درخت بن چکا ہے۔ لوگ اب اس سیاسی عصبیت کو ذاتی مسئلہ سمجھنے لگے ہیں۔ لوگ اپنے قاتلوں کو تومعاف کر سکتے ہیں لیکن سیاسی مخالفین کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کے لیڈر بھی اب اپنے لفظوں کے غلام بن چکے ہیں۔ ان کے دماغوں میں ایک مسلسل پروپیگنڈہ کے ذریعے کچھ باتیں اس قدر راسخ کر دی گئی ہیں کہ وہ اپنے مخالف سیاست دانوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟

یہ وہ باکمال لوگ ہیں جو سارا دن ایک دوسرے کو جھوٹی افواہیں فارورڈ کرتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں کے پاس بات کرنے کے لیے کوئی اور موضوع ہی نہیں ہوتا۔ ان کی اکثریت ادب یا فنون لطیفہ وغیرہ جیسے فضول جھنجھٹ سے دورہی ہوتی ہے۔ یہ کسی ڈرائنگ روم میں، دفتر، گاڑی یا ریسٹوران میں بیٹھے ہوں، صاف پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے پاس گفتگو کے لیے موضوعات محدودو ہوتے ہیں۔ آخر کوئی بندہ اپنی گاڑی یا پلاٹ کے بارے میں کتنی دیر بات کر سکتا ہے۔ غیبت وغیرہ بھی ایک خاص حد تک ہی طویل ہو سکتی ہے۔ سو سیاسی بحث کرنا ان کا شوق ہوتا ہے۔ جہاں کسی رنجش کا اندیشہ ہویہ وہاں بے چین رہتے ہیں یا خاموش، یا پھر وٹس اپ کی سکرین کھولے مسکراتے رہتے ہیں۔ آخر سیاست کا موضوع چھڑ جاتا ہے اور بس۔ کھڑاک ہو کر رہتا ہے۔

سیاست پر ان کی معلومات زیادہ تر افواہوں پر مبنی ہوتی ہیں جنھیں وہ اکثر وبیشتر ذاتی سورس کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات سوشل میڈیا پر پھیلائی ہوئی اپنی ہی افواہیں ایک دوسرے کو دکھا اورسناکر محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ چند دن قبل ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر ایک سیاست دان سے اربوں ڈالر کی وصولی کا ذکر کیا۔ میں ایسی پوسٹوں سے اکثر مسکرا کر گزر جاتاہوں، لیکن وہ دوست تھا سو محض چھیڑنے کے لیے اس سے سورس پوچھ لیا تو اس نے جواباًجونام بتایا وہ موصوف سے بھی گیا گزرا تھا۔

سوچتا ہوں یہ لوگ اپنا وقت کس فضول کام میں صرف کرتے ہیں۔ خیر اس میں ان کا ذاتی قصور کم ہے۔ ایک تو ان کے پاس کرنے کو کچھ اور ہے نہیں، دوسرا یہ کہ انھیں صبح شام رات دن ہر ذریعے سے مسلسل ایک ہی بات بتائی گئی کہ یہ پرانے سیاست دان ہی آپ کے مسائل کی اصل ذمہ دار ہیں۔

کہتے ہیں جھوٹ تواتر سے بولا جائے تو سچ لگنے لگتا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے ملک میں جھوٹ اس تواتر سے بولنے کے ساتھ اس بڑے پیمانے پرپھیلایا جاتا ہے کہ وہ ایمان بن جاتاہے۔ جھوٹی خبروں کے ذریعے مشہورومعتبر ہونے کا رجحان اسی لیے بڑھ رہا ہے۔ ایک وزیر صاحب جن کا کام تو جہازوں کی پروازوں پر نظر رکھنا ہے، اگلے دن حکومت اور نون لیگ کی مبینہ ڈیل کی شرلی چھوڑکر سرخرو ہوئے ہیں۔ سرخرو یوں کہ موصوف آج کل ہر چینل پر بلائے جاتے ہیں اور ہر پروگرام میں ان کا ذکر خیر ہوتاہے۔ لیکن اس تقسیم کو مزید گہرا کرنے والے یہ ہاتھ کس کے ہیں؟

اگر تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے کے تحت ایسا کیا جاتا ہے تو پھر اس تقسیم کی کوئی حد تو ہو گی؟ ہماری مقتدرہ ہمارے مقدر میں نفاق ہی کیوں لکھتی ہے؟ جب ملک میں تھوڑا سکون ہوتا ہے تو ہم بے چین ہو جاتے ہیں اور نئے نفاق کے لیے راہ ہموار کرنے لگتے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں سیاسی نفرت کا جو بیج بویا گیا تھان، وہ درخت بن چکا بلکہ نوید ہو کہ اب اس کا پھل بھی پک چکا ہے۔ اب اس نفرت میں مزیدتیزی آنی ہے۔

آپ انسانی ہمدردی کی باتیں کرتے رہیں لیکن لوگوں کو یاد ہے آپ نے سیاسی مہم کے دوران اپنے مخالفین کے ووٹروں کو گدھا کہا تھا اور آپ کے ایک نائب نے ایک اور مخالف کے لیے اس سے بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو بہت کچھ کہتے رہے لیکن آج تک کسی رہنما نے مخالف سیاسی جماعت کے ووٹرز کواس طرح گالیاں نہیں دیں۔ نفرت کے اس درخت کی جڑیں اتنی گہرائی تک پھیلا دینا آپ کا ہی کمال ہے۔ اب لوگ صبح اٹھتے ہی اس کی آبیاری میں لگ جاتے ہیں۔ سارا دن جھوٹ اور نفرت فارورڈ کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).