مولانا طارق جمیل پر دشنام طرازی اور کچھ حقائق


مذہب اور مہذب طرزِ عمل کا ہمیشہ سے چوّلی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جہاں مذہب ہوگا، وہاں اس کے پیش نظر کچھ اخلاقی اقدار بھی ہوں گی۔ مذہب کا پیروکار، کہ جن پر عمل پیرا نظر آئے گا۔ کیونکہ کسی بھی مذہب کا بنیادی بیانیہ ہی اخلاقی خصائل اور مہذبانہ رویوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

جاہل کا جاہلانہ رویہ کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن جب مذہب کے علم بردار جاہلانہ اور غیر مہذب طرزِ عمل اختیار کرنے لگیں گے تو ادیان کا طالب علم، اُن کے اپنائے گئے مذہب کی مروّج کردہ اخلاقی تعلیمات کو کریدنے پر مجبور ہو گا۔

علم ادیان کے ایک عام فہم قاری کو بھی اندازہ ہے کہ بہت سے فرقہ وارانہ اختلافات، جن کے پیش نظر مذہبی تعبیر و تشریح ہوتی ہے، درحقیقت علمی مسائل کی بجائے سراسر مقابل کی ذات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اور اہل مذہب منبر کے مقدس پلیٹ فارم کو ذاتی عداوت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

اور ایسے ہی گھٹیا رویے کا بہترین عملی مظاہرہ مولانا منظور احمد مینگل نے اپنی تقریر میں کیا۔ جب انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی دھرنے میں مولانا طارق جمیل کے متعلق بازاری زبان استعمال کی۔ اور وہاں کینٹینر پہ موجود علماء ان کو لقمے دیتے رہے اور ان کی موشگافیوں پر لطف اندوز ہوتے رہے۔ دراصل زمامِ اختیار جب نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں آتا ہے تو ایسے رویے عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مذہبی فرقہ پرست حلقوں کی یہ پرانی ریت چلی آئی ہے۔

کہ جب انہیں گمان گزرتا ہے کسی دوسرے فرقہ کا اسکالر ان سے بازی لے رہا ہے۔ اور عوام کی کثیر تعداد کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کا ووٹ بینک توڑ رہا ہے۔ تو پھر وہ ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آتے ہیں۔ اس گھٹیا رویے کا سامنا صرف مولانا طارق جمیل کو نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں، جب کچھ قد آور علمی شخصیات کو بلا سبب صرف علمی مرتبے کی بدولت حاسدین کے بغض کا نشانہ بننا پڑا۔ اور ایسے چھوٹے علماء نے طعن و تشنیع کر کے، اپنے مزید چھوٹا ہونے کا ثبوت دیا۔

مولانا مودودی کے علمی و فکری مرتبے سے ہر صاحبِ علم آگاہ ہے۔ وہ ان سے علمی اختلاف بھی رکھتا ہو بہرحال، ان کی عظمت کا قائل ہے۔ لیکن مولانا مودودی کو دیوبندی فرقہ نے انتہائی خوبصورتی سے مردود قرار دیا تھا۔ حالانکہ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کا بھی کہنا تھا کہ یہ نوجوان آنے والے دنوں میں امت مسلمہ کی کمان سنبھالے گا۔ اور یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ عالم اسلام کی بہت سی تحریکوں کی بنیاد مولانا مودودی کی فکر پر رکھی گئی۔ لیکن افسوس دیو بند کی غریب ذہنیت پہ، کہ انہوں نے تو علامہ اقبال جیسے مفکر کو بھی نہیں بخشا۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔

اور بھارت کے چوٹی کے مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اسی دیوبندی فرقہ نے امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا۔ کہ ذاکر نائیک کی ان کے گروہ سے وابستگی نہ ہو کے بھی ایسی عالمی شہرت، اس کانگرس نواز ٹولے کو کیسے ہضم ہو سکتی تھی۔

لیکن اس دفعہ بات ذرا آگے تلک نکل آئی ہے۔ اور غیروں سے ہوتی ہوئی اپنوں تک آ پہنچی ہے۔ کیونکہ مولانا طارق جمیل اپنے آپ کو بڑے فخر سے دیو بند سے جوڑتے ہیں۔ اور ان پہ کھلے بندوں دشنام طرازی بھی اسی گروہ کی طرف سے ہوئی ہے۔

1866ء میں اپنے جنم کے بعد سے ہی دیوبند بہت سی نامناسب سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود اپنے دیرینہ حریف، بریلوی مت کی نسبت ایک سنجیدہ شناخت اپنائے ہوئے ہے۔ اور قدرے سنجیدہ مزاج لوگ ہی اس کی پیروکار ہیں۔ لیکن آج دیوبندی علماء جس نہج پہ جارہے ہیں، کیا یہ اپنی سنجیدہ علمی ساکھ برقرار رکھ سکے گا؟

پاکستان میں آج دیو بندیت کی زمامِ کار جن ہاتھوں میں ہے ان کا تو ماضی بھی گواہ ہے کہ وہ کبھی دیوبندی فرقہ سے مخلص نہیں رہے۔ 2007 ء کے سانحہ لال مسجد میں جب دیوبندی علماء کی اکثریت غازی عبدالرشید کے حق میں تھی۔ تب مخصوص علماء کا یہ ٹولہ مارشل لاء کی گود میں بیٹھا لسی پی رہا تھا۔ اور آج بھی صرف اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دیوبند کے غیر سیاسی پیروکاروں کا استعمال کر رہا ہے۔

ایسے میں دیوبندیت کے پیروکاروں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ایسے موقع پرست علماء سے جان چھڑانا ہوگی۔ جو کہ کسی صورت ممکن نظر نہیں آتا۔

تو ایسے میں دیوبندی پیروکاروں کو چاہیے کہ پھر دیوبند پہ تین حرف بھیج کے ایک نئی جماعت کھڑی کریں۔ جو کہ علمی و اعلیٰ اخلاقی رویے کی مثال ہو۔ لیکن یہ ایک مشکل اور محنت طلب تجربہ ہے۔ ایسے میں ان کے لئے دیو بند ہی کی ذیلی رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت ایک بہترین آپشن کے طور پر موجود ہے۔ اور اس میں دیوبند کی طرز پہ مرکز رائے ونڈ کے نام سے رائے ونڈی فرقے کی داغ بیل ڈالی جائے۔ اور مولانا طارق جمیل جیسے اعلیٰ اخلاق و اطوار کے حامل عالم دین کو اس کا امیر بنایا جائے۔ اور مولانا تبلیغی جماعت کے حوالے سے کافی اچھی شہرت بھی رکھتے ہیں۔ ویسے مولانا طارق جمیل جیسی سلیم الفطرت اور باوقار شخصیت سے ایسی مذہبی منکرات کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔

اور یہ کالم لکھتے ہوئے ایک دیوبندی دوست سے اس بارے گفت و شنید ہوئی۔ تو معلوم ہوا کہ کٹورے پہ کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا کے مصداق مولانا طارق جمیل پہلے سے ہی تبلیغی جماعت کے زیرِ عتاب ہیں۔ اور رائے ونڈ اجتماع میں ان کی تقاریر پہ پابندی عائد ہے۔

مولانا طارق جمیل کی میانہ رو اور معتدل مزاج شخصیت، تبلیغی اور دیو بندی اربابِ اقتدار کے موجودہ رویے کے تناظر میں صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے۔ کہ کسی دوسرے معتبر عالم کی زیر امارت ایک نئے فرقہ کی بنیاد رکھی جائے۔ جو کہ واضح طور پہ دو گروہوں میں بٹتی دیوبندی عوام کی قیادت کرسکے۔ کسی کو تو آگے آنا ہو گا۔ اب دیکھتے ہیں بارش کا پہلا قطرہ کون سے دیو بندی عالم بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).