کیا نوازشریف ایک بار پھر ڈکٹیشن نہیں لیں گے؟


\"wisi-baba\"

سیرل المیڈا کی ڈان میں چھپی۔ یہ سٹوری قومی سلامتی کے خلاف ہے، آج ہوئی کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں بتایا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کانفرنس میں اندرونی و بیرونی سیکیورٹی صورتحال پر غور ہوا۔ ایل او سی پار کر کے سرجیکل سٹرائکس کرنے کا بھارتی دعوی مسترد کر دیا گیا۔

سیرل اور ڈان سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ اعلی فوجی ترجمان پہلے ہی ٹی وی پروگرام میں بتا چکے ہیں۔

بات سیدھی کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ اعتراض وزیراعظم پر ہوا ہے۔ انہی کی صدارت میں اجلاس تھا۔ انہی کے دفتر سے خبر لیک ہوئی۔ تو پھر وہی ذمہ دار کیوں نہ ٹھہرائے جائیں گے؟ قومی سلامتی کی بات کی گئی ہے کہ اس کے خلاف عمل ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ دہشت گردوں سے نپٹنے کے لئے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں۔ کرپشن کو بھی دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے۔ فوجی عدالتیں قائم ہیں۔

پرانے دور کی بات کرتے ہیں۔ نوے کی دہائی تھی، اس دہائی کا دوسرا تیسرا سال تھا۔ آصف نواز آرمی چیف تھے، جو کھلی محفلوں میں کہنے لگ گئے تھے کہ چند سو بندہ لمکا دیا جائے تو ملک سدھر جائے گا۔ آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے لیس غلام اسحق صدر تھے۔ ان سے نوازشریف نے سینگ پھنسا رکھے تھے۔ جب محلاتی سازشوں سے تنگ ائے تو ڈکٹیشن نہیں لونگا والی تقریر کی۔ وہ تقریر اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی اور نوازشریف برطرف ہوئے۔ صدر غلام اسحق نے قومی اسمبلی توڑی، عدالت نے حکومت سمیت بحال کی۔ قصہ مختصر صدر وزیر اعظم دونوں کو اپنے اپنے گھر واپس جانا پڑا۔ اس تقریر نے نوازشریف کو عوامی وزیراعظم بنا دیا۔

\"nawaz-sharif\"

کچھ سال اپوزیشن میں رہ کر وہ پھر حکومت میں آئے۔ پھر وہی بھیڈو ٹکروں والی حکومت چلائی، فاروق لغاری کو ہٹایا، چیف جسٹس کو ہٹایا، عدالت پر حملہ ہوا، جنرل جہانگیر کرامت سے استعفی لیا، پرویز مشرف آرمی چیف بنے۔ ایٹمی دھماکے کئے پھر واجپائی لاہور آئے۔ اس امن عمل کا آغاز ہوا تھا جس کو کارگل میں گولہ لگا۔ کارگل کی لڑائی کے دوران ہمارے آرمی چیف جو اس وقت پرویز مشرف تھے، کی ٹیلی فونک بات چیت بھارتی چینلوں پر نشر ہوئی۔ ایسا اس وقت ہوا جب وہ چین کے دورے پر تھے جہاں سے انہوں نے پاکستان کال کی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب بھارتی قیادت میں نوازشریف کے لئے ایک مستقل پسندیدگی پیدا ہوئی تھی۔ اندرونی حلقوں سے یہ سن گن ملی کہ یہ ٹیلی فون کال ٹیپ کرنے اور ریلیز کرنے کا الزام اس وقت کی نوازشریف حکومت پر لگا تھا۔ بھارتی پسندیدگی کے ساتھ ہی نوازشریف نے امریکی صدر کلنٹن کو بھی اپنا مداح بنایا جب کارگل کی لڑائی ختم کرانے کو وہ امریکہ گئے۔ یہ امریکی صدر کی پسندیدگی ہی تھی جس نے دراصل نوازشریف کو جنرل مشرف سے چھڑوا کر سعودی عرب جلاوطن ہونے کی سہولت فراہم کی۔

جلاوطنی کے دنوں میں نوازشریف نے اپنے عالمی رابطوں کو مستحکم کیا۔ اب کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے کے بعد نواز حکومت شدید پریشر میں آ گئی ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب نوازشریف کا حقیقی مخالف کپتان اسلام اباد میں دھرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے میں تقریبا ایک ماہ رہ گیا ہے۔ آرمی چیف کی روانگی سے ہفتہ دس دن پہلے گوادر سے پہلی شپمنٹ چینی سامان لیکر بھجوانے کی تیاریاں جاری ہیں۔

اگر نوازشریف اس پریشر سے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اس پریشر میں آ کر ماضی کی طرح پھر ایک تقریر کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اس تقریر میں بھی وہ ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کر دیتے ہیں، تو غیر یقینی کیسی کیفیت ہوتی ہے ہم جان لیں گے۔ ہمارا پاکستان سے محبت کرنے والا دل یہی کہتا ہے کہ نوازشریف کی تقریر نہ ہی ہو تو اچھا ہے۔

پچھلی میٹنگ کی جو خبر لیک ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر یہ تقریر ہوئی تو اس میں نان سٹیٹ ایکٹر کا ذکر ہونا لازم ہے کہ اس وقت وجہ تنازعہ وہی ہیں۔ تقریر میں ممبئی، پٹھان کوٹ، اڑی کے واقعات، ان میں ملوث لوگوں سے نپٹنے کے طریقہ کار پر اختلافات کا ذکر ہو گا، ممکنہ طور پر عالمی ذرائع سے فراہم کردہ ثبوتوں کے ساتھ ، خواہ اس کے بعد حکومت رہتی یا جاتی ہے۔ پریشر سے خود تو نواز شریف نکل جائیں گے لیکن جو پریشر میں آئیں گے، انہیں ساری دنیا کو صفائیاں دیتے ہوئے بہت مشکل پیش آئے گی۔

 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments