آٹھ نسخے: سُستی اور ٹال مٹول سے کیسے بچا جائے؟


سستی
’بس ایک منٹ دیں، میں ابھی اٹھتی ہوں‘

صاف ظاہر ہے کہ اس مضمون کا ایک بھی فقرہ لکھنے سے پہلے میں نے واشنگ مشین چلا دی تھی، چائے کا کپ بنا لیا تھا، ای میلز کے جواب دے دیے تھے، فیس بُک کو دیکھ لیا تھا اور دو بلاگ بھی پڑھ لیے تھے۔

اس سے پہلے کہ میں لکھنے بیٹھتی، واشنگ مشین رک چکی تھی تو مجھے مزید ٹال مٹول کا موقع مل گیا۔ ظاہر ہے کہ دھلے کپڑے اب سوکھنے کو لٹکانے بھی تھے، اور جب میں کپڑے تار پر ڈالنے کے لیے باہر نکلی تو پودوں کو پانی بھی تو دینا تھا۔

اس ٹال مٹول کا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں میں نے یہ مضمون لکھ دیا تھا اور وقت پر بھجوا بھی دیا تھا۔

ہم سب کسی نہ کسی حد تک سستی سے کام لیتے ہیں، لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے کا نقصان ہو گا، لیکن آپ پھر بھی تاخیر کرتے رہتے ہیں۔

ٹال مٹول اور کاہلی کی عادت اگر پکی ہو جائے تو اس کے برے اثرات آپ کی صحت پر بھی پڑ سکتے ہیں، آپ مستقل طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، ورزش کو ملتوی کرتے ہوئے آپ مزید غیر صحت مند خوراک کھاتے رہتے ہیں اور حتیٰ کہ کسی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس جانے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔

تو کیا نفسیات کے شعبے میں ہونے والی کوئی تحقیق اس عادت سے ہماری جان چھڑا کر وقت پر کام کرنے کا جذبہ اجاگر کر سکتی ہے؟ اس حوالے سے میں آپ کو کچھ مشورے، کچھ ٹوٹکے بتا سکتی ہوں۔

1 –صرف قوت ارادی پر انحصار نہ کریں

ورزش کرتی خاتون

ہو سکتا ہے کہ آپ کی قوت ارادی آپ کو منزل پر پہنچا دے، لیکن یہ اتنی نازک ہوتی ہے جلد ٹوٹ بھی سکتی ہے

برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے منسلک کھیلوں کی نفسیات کے ماہر، ایئن ٹیلر کی تحقیق بتاتی ہے کہ لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم پختہ ارادہ کر لیں تو سستی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

لیکن ایئن پیٹر کے بقول ’قوت ارادی کام کا جذبہ پیدا کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، لیکن یہ بہترین طریقہ نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی کام کے ناپسندیدہ پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کے لیے اپنی قوت ارادی پر بھروسہ کرنے کی بجائے، آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان پہلوؤں سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ناگوار پہلوؤں کو نظر انداز کر کے اپنا بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔

مثلاً اگر آپ آدھے گھنٹے سے دوڑ رہے ہیں اور اب آپ کے پٹھوں میں درد ہو رہا ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ درد کوئی بری بات ہو اور اس کے خلاف لڑنا ضروری ہو، کیونکہ اگر آپ واقعی فِٹ ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ درد بھی اس کا حصہ ہے۔

2 – جس کام کو آپ ٹال رہے ہیں اس میں کچھ مثبت تلاش کریں

کیا کسی کام کو ٹالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ناکام ہو جانے کا خطرہ ہے؟

یونیورسٹی آف شفیلڈ کی محقق فوچیا سیروس کو سستی اور ٹال مٹول کے معاملے کا مطالعہ کرتے ہوئے 15 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس مسئلے کی وجہ ہمیشہ سستی اور وقت کا درست استعمال نہ کرنا نہیں ہوتی، بلکہ اس کی وجہ اپنے جذبات کو درست سمت میں استعمال نہ کرنا بھی ہو سکتی ہے۔

اگر آپ کو یہ فکر ہے کہ آپ کسی کام میں ناکام ہو جائیں گے تو آپ اس کام کو ملتوی کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور ناخوشگوار جذبات سے نہیں گزرنا چاہتے۔

لیکن اگر آپ یوں سوچتے ہیں تو پھر دائرے میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ چونکہ آپ پہلے ہی دیر کر چکے ہیں اس لیے اب آپ کے پاس کام ختم کرنے کے لیے وقت کم بچا ہے، جس سے یہ امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ آپ ناکام ہو جائیں گے، یوں آپ اور زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں اور اس کے امکانات مزید کم ہو جاتے ہیں آپ کام شروع کر دیں گے۔

اس قسم کی سوچ پر قابو پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے سامنے جو کام پڑا ہے، اس میں سے مثبت پہلو تلاش کریں۔ ہو سکتا ہے آپ اس میں کوئی نئی چیز سیکھ لیں اور آپ کو توقع سے زیادہ مزہ آنے لگے۔

3 – وقت سے پہلے منصوبہ بندی کریں

مستقبل

یہ سوچنا حقیقت پسندی نہیں کہ آپ مستقبل میں یکسر بدل جائیں گے، لیکن آپ منصوبہ بندی کا ہنر سیکھ سکتے ہیں

اگر آپ جانتے ہیں کہ کوئی ایسی خاص چیز ہے جو آپ کو ٹال مٹول پر مجبور کر سکتی ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ وہ نفسیاتی حکمت عملی استعمال کریں جسے ’اگر۔ ۔ پھر‘ کی حمکت عملی کہتے ہیں۔ یوں اگر آپ وقت سے پہلے کام کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو سوچ لیتے ہیں کہ ’اگر‘ یہ ہوا تو میں ’پھر‘ کیا کروں گا۔

مثلاً اگر آپ کو کوئی کہتا ہے کہ چلو اس ہفتے اتوار کو کافی کے لیے ملتے ہیں، لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہفتے اتوار کو آپ نے پڑھائی کرنی ہے، تو آپ اپنے دوست کو کہہ سکتے ہیں کہ وِیک اینڈ کی بجائے کسی شام کو کافی کے لیے مل لیتے ہیں۔

جب امریکی ماہر نفسیات پیٹر گولوِٹزر نے ایسے 94 افراد کا مطالعہ کیا جو اس حمکت عملی کو اپناتے ہیں تو پیٹر کو معلوم ہوا کہ اس بات کے امکانات دو تین گنا زیادہ ہو جاتے ہیں کہ یہ افراد اپنے منصوبے پر کاربند رہیں گے۔

4- اپنی تکلیف کو کم کریں

سوشل میڈیا

سوشل میڈیا کے لیے کوئی پیچیدہ اور طویل پاس ورڈ بنائیں۔ ہو سکتا ہے اس سے آپ کو یاد آ جائے کہ آپ کو سوشل میڈیا کی بجائے کام پر توجہ دینی چاہیے

کسی کام کے آغاز کو جتنا آسان بنا سکتے ہیں بنائیں۔

کیا آپ نے کبھی ’چوائس آرکیٹیکچر‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ جب آپ خریداری کر کے دوکاندار کو پیسے دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس چاکلیٹ کی بجائے کوئی تازہ پھل پڑا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ زیادہ صحت افزا چیزیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم یہ طریقہ خود پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ناشتے کے بعد دوڑنے کے لیے جانے کا سوچ رہے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ ورزش کے کپڑے پہن لیں۔ اسی طرح جو کام آپ نے صبح کرنا ہے اس کی چیزیں ایک رات پہلے سامنے میز پر رکھ دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صبح آپ کی نطر سب سے پہلے جس چیز پر پڑے گی آپ وہی کام شروع کر دیں گے۔

اور ایک اور چیز یاد رکھیں اور وہ یہ ہے کہ ان چیزوں کو اپنے سامنے سے ہٹا دیں جن کو دیکھ کر آپ کا دھیاں بھٹک جاتا ہے، مثلاً اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر الرٹ کی آپشن کو آف کر دیں، موبائل کی آواز بند کر دیں اور سوشل میڈیا سے لاگ آف کر لیں۔

5 – خود کو انعام دیں

سیر

آپ کا کام جتنی جلد ختم ہو گا آپ اتنی ہی جلدی سیر کے لیے نکل جائیں گے

امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی سے منسلک کیٹلِن وُولی کی ایک نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ لوگوں کو اگر اپنے کام کا پھل فوراً ملنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ محنت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بنسبت اس وقت جب انہیں اپنے کام کا صلہ انتظار کے بعد ملتا ہے۔

ہمیں لیت و لعل سے کام لینا اچھا اس لیے لگتا ہے کہ ہم پیچیدہ کام ملتوی کر کے خوش ہونے لگتے ہیں کہ چلو یہ مصیبت تو ٹلی۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آپ خود کو لیت و لعل کا انعام دینے کی بجائے کوئی بہتر انعام دیں۔

امریکہ کی ہی پنسلوینیا یونیورسٹی کی کیتھرین مِلکمین نے اس سلسلے میں جو تحقیق کی اس میں انھوں نے دیکھا کہ اگر لوگوں کو جم میں ورزش کے دوران بہت دلچسپ کتابوں کی آڈیوز سننے کو دی جائیں (اور انہیں یہ آڈیوز جِم سے لیجانے کی اجازت نہ ہو)، تو وہ یہ جاننے کے لیے کہ کہانی میں آگے کیا ہوا، جلد ہی دوبارہ جِم میں آ جائیں گے۔ صاف طاہر ہے کہ آپ کو فِٹ ہوتے ہوتے وقت لگے گا، لیکن آڈیو آپ کے لیے فوری انعام یا پھل ثابت ہوتی ہے۔

آپ بھی سوچیے کہ آپ کے لیے کیا چیز بہترین ہو سکتی ہے اور خود سے یہ تہیہ کر لیں کہ آپ نے کام ختم کر کے دم لینا ہے۔

6 – اپنی حقیقت پسندانہ تصویر سامنے رکھیں

مستقبل

سیروس کہتی ہیں کہ ہم خود کو مستقبل میں ایک سُپر ہیرو کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں

ہم سے اکثر لوگوں کو یہ سوچنا اچھا لگتا ہے کہ مستقبل میں ہمارے پاس وقت زیادہ ہوگا۔ یوں ہمیں امید ہوتی ہے مستقل میں ہم زیادہ منظم طریقے سے کام کریں گے اور ہم سوچتے ہیں کہ پھر ہمارے اندر توانائی بھی زیادہ ہوگی اور ہم ایک ایسی زندگی جی رہے ہوں گے جہاں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی۔

صاف ظاہر ہے یوں ہو گا نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہیں پتہ ہوتا کہ کوئی کام کتنا وقت لے گا۔ اس کیفیت کو ’پلانِنگ فیلیسی‘ یا منصوبہ بندی کا مغالطہ کہتے ہیں۔

منثبہ بندی کی مغالھے کی میری پسندیدہ مثال آسفر؟ انگلش ڈکشنری کا پہلا ایڈیشن ہے۔ سنہ 1860 میں اعلان کیا گیا تھا کہ اس ڈکشنری کی اشاعت دو سال بعد ہو جائے گی، لیکن اسے مکمل ہوتے ہوتے 1928 ہو چکا تھا۔ اور اس وقت تک اس ایڈیشن میں شائع ہونے والی چیزیں اتنی پرانی ہو چکی تھیں کہ جلد ہی ڈکشنری پر نطر ثانی کا کام شروع کرنا پڑ گیا۔

7 – خود پر رحم کریں

دوست

ہم اپنے دوستوں پر اتنی سختی نہیں کرتے جتنی خود پر کرتے ہیں

اگر آپ آج آدھا دن پہلے ہی انٹرنیٹ پر ضائع کر چکے ہیں اور آپ کو جا کر اپنا کام کرنا چاہیے، ہماری اس تجویز کی کوئی تُک نہیں بنتی کہ خود پر رحم کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو کام کرنے کی بجائے بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں، اپنا لحاظ کم کرتے ہیں۔

اور چونکہ یہ لوگ پہلے ہی کام نہ کرنے کی وجہ سے خود کو کوس رہے ہوتے ہیں، ایسے میں اگر ان پر مزید منفی سوچ حاوی ہو جائے تو ان کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوگی۔

ایسے طلباء جو امتحانات سے پہلے تیاری نہیں کرتے، ان پر ایک تحقیق میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ طلباء جو اپنی سستی کو معاف کر دیتے ہیں ان کے پڑھائی میں جُت جانے کے امکانات ان طلباء سے زیادہ ہوتے ہیں جو خود کو کوستے رہتے ہیں اور خود کو معاف کر کے آگے نہیں بڑھتے۔

فوچیا سیروس ٹھیک کہتی ہیں کہ اکثر ہم اپنے دوستوں پر اتنی سختی نہیں کرتے جتنی خود پر کرتے ہیں، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اُسی درجے کی رحمدلی کا مظاہرہ ہم اپنی ذات کے ساتھ بھی کریں۔

8 – اپنے بارے میں صحیح طریقے سے بات کریں

ادیبہ

خو کو بتائیں کہ آپ ایک ادیبہ ہیں، یوں اس بات کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے کہ آپ واقعی قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیں

آپ اپنے بارے میں کس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں، یہ چیز بھی بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔

سنہ 2008 کے صدارتی انتخابات سے کچھ ہی عرصہ پہلے ریاست کیلیفورنیا میں ایک تحقیق کی گئی تھی۔ اس میں جن لوگوں نے اپنا ووٹ رجسٹر کروا لیا تھا ان سے کچھ سوال پوچھے گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ’ووٹنگ‘ کے بارے میں وہ کیا محسوس کرتے ہیں یا یہ پوچھا گیا کہ ’ایک ووٹر ہونا آپ کو کیسا لگتا ہے۔‘

ہو سکتا ہے کہ ہمیں دونوں سوالوں کی زبان میں زیادہ فرق نہ دکھائی دے، لیکن جب الیکشن کا دن آیا تو جن لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ ’ووٹر بننا کیسا لگا‘ ان میں سے 95 فیصد اپنا ووٹ ڈالنے گئے،۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جن سے محض ’ووٹنگ‘ کے عمل کے بارے میں رائے پوچھی گئی تھی، ان میں سے 82 فیصد ووٹ ڈالنے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب ہم خود کو ایک خاص حیثیت میں دیکھتے ہیں، تو اس سے ہمارے رویے پر بھی فرق پڑتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو ایک شخص کے طور پر پیش نہ کریں جو کبھی کبھی بھاگنے چلا جاتا ہے اور ڈائیٹنگ بھی کر لیتا ہے، بلکہ خود کو ’ورزش کرنے والا‘ اور ’صحت افزا خوراک کھانے والے شخص‘ کے طور پر پیش کریں۔ یوں اس بات کے امکانات شاید زیادہ ہو جائیں کہ آپ واقعی بھاگنا اور اچھی چیزیں کھانا شروع کر دیں۔

ائین ٹیلر کہتے ہیں کہ یہ ترکیب کام کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یوں کہنے سے آپ کی ذات اور اُس رویے کے درمیان ایک رابطہ بن جاتا ہے۔ یوں ’آپ محض محض وہ رویہ نہیں جی رہے ہوتے، بلکہ آپ وہ زندگی گزارنے لگتے ہیں جیسی آپ کی خواہش ہوتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp