ترکی میں خاندانی خودکشیوں کے بعد اُمید کا خاتمہ


فاتح ،استنبول کے اضلاع میں سے ایک ضلع ہے ،جو اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔یہ گذشتہ ہفتے کی بات ہے کہ کچھ لوگوں نے ایک فلیٹ کے دروازے پر پیغام چسپاں دیکھا،جس پر یہ عبارت لکھی تھی”خبردار!اندر زہر ہے ،گھر میں داخل مت ہوں ،پولیس کو اطلاع دیں“یہ نوٹ کس نے لکھا تھا ،معلوم نہیں پڑرہا تھا ؟بہرحال جس نے بھی لکھا تھا ،اُس کا مقصد پڑوسیوں کو زہریلے مادے سے محفوظ رکھنا تھا۔جب پولیس پہنچی اور اندر داخل ہوئی تو پولیس نے چارلوگوں ،جس میں دومرد اور دوخواتین ،جن کی عمریں 48 سے 60 کے درمیان تھیں ،کومردہ پایا۔وہ سب ایک ہی خاندان کے تھے اور مرچکے تھے۔یہ فیملی کئی دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر تھی۔ان کے دوستوں کے مطابق یہ بہن بھائی تھے اور بے روزگاری اور محتاجی کی زندگی بسرکررہے تھے۔اُن میں سے ایک بہن میوزک ٹیچر تھی ،جس کو ملنے والی اُجرت پوری نہیں پڑتی تھی۔اس طرح اس فیملی پر قرض کا بوجھ روزبہ روز بڑھتا چلا گیا اور قرض اُتارنے کے لیے اُنہیں ملازمتیں درکارتھیں ،جو نہیں مل پارہی تھیں،یوں یہ کنبہ مالی تنگدستی اور بے روزگاری کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکارہوتا چلا گیا۔

ایک مقامی دکاندار ،جو اُن کو ایک عرصہ سے جانتا تھا کا کہنا تھا کہ”یہ سب خوب صورت لوگ تھے۔انہوں نے غربت کو ختم کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا“کئی گھنٹوں بعد لاشوں کو مردہ خانے بھیجا گیا ،تو اُسی وقت بجلی کی کمپنی نے اُن کے فلیٹ کی بجلی منقطع کردی کیونکہ اُنہوں نے کئی ماہ سے بلِ ادا نہیں کیا تھا۔اس کنبے نے بہ ظاہرخودکشی کی تھی ،تاہم اس اقدام نے پورے ترکی میں ایک نئی بحث کو جنم دے ڈالااور تقریباًہر چیز کی طرح اس واقعہ کو بھی کئی سازشی نظریات کے ساتھ سیاست زدہ بنادیا گیا ۔ترکی میں رواں برس بجلی کے نرخوں میں دس بار اضافہ ہوااور مجموعی طور پر 57فیصد بجلی مہنگی ہوئی ،جبکہ نوجوانوں میں شرح بے روزگاری 27فیصد تک بڑھ گئی۔میڈیا اور سوشل میڈیا میں حکومت کے حامیوں نے غربت اور بے روزگاری کے تعلق کو ٹھکرادیا اور لبرلز اور جمہوریت پسندطبقے پر یہ الزام لگایا کہ یہ عوامی رائے کو خراب کررہے ہیں اور دُنیا میں ترکی کے امیج کو داغدار کررہے ہیں۔ترکی کے ایک روزنامہ صباح کی کالم نگار نے اپوزیشن جماعتوں اور بی بی سی ترکی ،کی طرف سے اُس مشترکہ مذموم مہم جوئی کے خلاف شکایت درج کروائی ،جو اُس کے نزدیک ان کی جانب سے ترکی ،کی معیشت کو دم توڑتا بتارہے ہیں۔

ترکی کے نائب صدر فوات اوکتے(Fuat Oktay)نے اعلان کیا کہ ”وہ کہتے ہیں کہ ایک ہی خاندان کے چارافراد اس لیے مر گئے کہ وہ بھوکے تھے ،یہ سچ نہیں ہے۔کیونکہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ ان کی اموات غربت کی وجہ سے ہوئی ہیں“اسی اثنا ءمیں ایک مذہبی انداز کے حامل حکومت کے حامی اخبار (Yeni Akit) نے انگریز مصنف رچرڈ ڈاﺅکنز کی کتاب پر الزام عائد کیا کہ” چار افراد نے اسی کتاب کی وجہ سے اپنی زندگیاں ختم کیں۔رچرڈ ڈاﺅکنز کی کی کتاب ”خدائی مغالطہ“فلیٹ میں کتابوں کی الماری سے مل بھی گئی ،اس الحامی کتاب نے چار لوگوں کو زندگیاں ختم کرنے پر مجبور کیا“(واضح رہے کہ خدائی مغالطہ نامی کتاب جو 2006ءکی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی غیر ادبی کتاب ہے، انگریز ماہر حیاتیات رچرڈ ڈاکنز، جو پروفیسر کی حیثیت سے نیو کالج، آکسفرڈ سے وابستہ ہیں،اس کے مصنف تھے،جن کا اُوپر ذکر آچکا ہے۔یہ کتاب الحا د کا پرچار کرتی ہے ۔اس کتاب کا ترجمہ ترکی زبان میں بھی کیا گیا)

اگلے دِن انطالیہ(ترکی کا ایک شہر)میں ایک فیملی ،گھر میں مردہ پائی گئی۔بچے،جن کی عمریں ،نو اور پانچ برس تھیں ،اپنے کمروں میں ہاتھ تھامے پائے گئے۔ان کا باپ طویل عرصہ سے بے روزگاری کے عذاب کو برداشت کررہا تھا ،اس نے ایک پیغام چھوڑا،جس میں اُن مشکلات کا ذکر کیا ،جن سے وہ ایک عرصہ سے گزر رہا تھا۔لیکن اس بار کسی حکومت نواز میڈیا نے یہ الزام نہیں لگایا کہ اس فیملی نے کوئی کتاب پڑھی تھی۔اس کے بجائے ،اُس وقت یہ تجویز زیرِ غورلائی گئی کہ کچھ عرصہ تک زہر کی فروخت پر پابندی لگادی جائے۔

ترکی میں 2012ءسے خودکشیوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے،حالانکہ ترکی میں خودکشی ایک گناہ تصور کی جاتی ہے۔سرکاری اعداد وشمار 2018ءکے مطابق،ترکی میں 3161لوگوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔اب یہاں موجودہ دِنوں میں ترکی میں خودکشی کی شرح روازنہ کی بنیاد پر 8بنتی ہے اور ایک درجن لوگ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔رواں ماہ کا ایک افسوس ناک اور دلخراش واقعہ ملاحظہ کریں کہ ایک شامی مہاجر عامر حتاب جو اپنے تین بچوں کے ساتھ جنگ اور تباہی سے بچنے میں کامیاب رہاتھا ، استنبول کی ایک گلی میں گٹر کا ڈھکنا اٹھایا اور شہر کے گند ے پانی کی نکاسی کے نظام میں کود پڑا ، یوں اُس نے اپنی زندگی کو ختم کر ڈالا۔اس کے خودکشی کے مذکورہ اقدام کو گلی میں نصب کیمروں نے محفوظ کر لیاتھا۔

خودکشی ہمیشہ ہی بے حدحساس مسئلہ رہا ہے اورہم مکمل طور پر یہ نہیں جان پاتے کہ ایک شخص اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں کرلیتا ہے؟لیکن ایک ایسا ملک جہاں اظہارِ رائے کی آزادی نہیں اور صحت مند مباحثہ کی گنجائش نہیں ،وہاں ان معاملات پر ردِ عمل بہت ہی بھیانک انداز سے دیا جاتا ہے۔جو لوگ ترکی میں خودکشیوں میں ڈرامائی اضافے کے پیچھے معاشرتی و اقتصادی عوامل کے بارے میں تنقیدی اند زاختیارکرتے ہیں ان پر فوری طور پر الزام لگادیا جاتا ہے کہ وہ ”دھوکا باز “ ہیں اور ”پوشیدہ ایجنڈا“ پر کارفرما ہیں۔حکومتی سطح پر اب یہ اُمور بھی زیرِ غور ہیں کہ ترکی کے اُن ماہرین معاشیات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے جو ترکی ،کی معیشت پر غلط انداز ے قائم کرتے ہیں اور غلط اعدادوشمار پیش کرتے ہیں۔بلوم برگ کے دونامہ نگاروں کے خلاف حال ہی میں مقدمے کی سماعت ہوئی ،اُن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنے مضامین میں غلط معلومات کو فروغ دیا اور ترکی کے معاشی نظام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔اسی طرح 36اُن افراد کو عدالت میں لایا گیا ،جنہوں نے سوشل میڈیا پر ترکی کی کرنسی (Turkish lira)کی گراوٹ پر مزاحیہ لطیفے لکھے تھے۔برٹولٹ ،بریچٹ(Bertolt Brecht)بیسویں صدی کے جرمن شاعر، ڈراما نویس اور تھیٹر ڈائریکٹر تھے جو اپنی ڈراما نگاری کی وجہ سے عالمی شہرت کے حامل ہیں،نے اپنی ایک نظم میں سوال اُٹھایا تھا کہ ”یہ کیا وقت ہے ….جب درختوں کے بارے میں بات کرنا تقریباً ایک جرم ہے…. کیونکہ ایسا کرنے میں ہم بہت ساری وحشتوں کے بارے میں خاموش رہتے ہیں“

ترکی کے بہت سے خودکشی کرنے والوں کو استنبول کے مضافاتی قبرستان میں سپرد خاک کیا جاتا ہے ، اس جگہ کے بارے میں ،مَیں نے اپنے ناول” 10 منٹ ، 38سیکنڈ اس اجنبی دنیا میں“میں لکھا ہے۔یہاں بہت ساری قبروں میں پتھر نہیں لگا ہوا،بس اُن کی تعداد بتائی گئی ہے۔ابتدائی طور پر اُن چار فیملی ممبر ز کو بھی اسی قبرستان میں دفن کیا جارہاتھا ،ان چاروں کے دوستوں کے پاس کوئی ایسا قانونی جواز نہیں تھا ،جس کے مطابق ان چاروں کی تدفین جائز طو رپر ہوسکتی اور چاروں کے رشتہ دار کوئی بھی اقدام لینے سے ہچکچارہے تھے۔تاہم میڈیا کوریج نے حکومت پر دباﺅ ڈالااور ان چاروں کی تدفین کو یہ حق دلوایا دیا کہ ان کی قبروں کے پتھر ہوں گے۔

جب ہم کساد بازاری ،بے روزگاری اور غربت کی بابت سوچتے ہیں تو ہم اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہیں ،لیکن ہر اعدادوشمار ہمیں حقیقی انسانی کہانی پیش کرتا ہے۔معاشرتی اور سیاسی بحران اپنے اثرات اس طرح مرتب کرتا ہے کہ لوگ اپنے موجودہ حالات اور مستقبل کے بارے میںسوچنے لگ پڑتے ہیں۔

جب اور جہاں جمہوریت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا جاتا ہے ، اور انسانی حقوق ، آزادی اظہار ، تنوع اور کثرتیت کو روند دیا جاتا ہے ، لوگوں سے ذاتی صلاحیت بھی وہاں چھین لی جاتی ہے۔ لیکن جب معاشرے کے تباہ ہونے کے بعد انسانی وقار تباہ ہوجاتا ہے تو کیا اُس معاشرے کا ڈھانچہ قائم رہ سکتا ہے؟

بہ شکریہ ”دی گارجین“ تحریر الیف شفق ، ترجمہ:احمد اعجاز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).