چاند کہاں ہے؟


سندھی تخلیق : اکبر لغاری ۔۔۔ ترجمہ: شاہد حنائی (کویت)

آج چودھویں کی رات ہے اور آسمان پر چاند نہیں ہے۔ مطلع بالکل صاف ہے۔ آسمان پر بادل بھی نہیں ہیں، لیکن چاند کی صورت ندارد۔

ہم دونوں چاند کی کھوج میں نکل پڑتے ہیں۔ ہمیں ایک شخص ملتا ہے، ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ چاند کہاں ہے، تو وہ جواب دیتا ہے کہ ”رات کے بارہ بجے ہیں۔ “ یہ کَہ کر وہ بلا وجہ ہنسنے لگتا ہے اور سیٹی بجاتے ہوئے چلا جاتا ہے۔

ہم دونوں اپنے قدم آگے بڑھادیتے ہیں اور طے کرتے ہیں کہ کسی سیانے بندے سے پوچھا جائے کہ آخر آج چاند گیا کہاں! پہلے تو چاند اس طرح کبھی غائب نہیں ہوا تھا۔ ہمیں ایک پڑھا لکھا شخص دکھائی دیتا ہے۔ ہم آگے بڑھ کر اس سے دریافت کرتے ہیں :

” چاند کہاں غائب ہو گیا ہے! “

” مَیں گونگا ہوں، آپ کو کچھ بھی نہیں بتا سکتا۔ “ وہ شخص جواب دیتا ہے۔

”لیکن آپ تو بول رہے ہیں! برائے کرم ہمیں چاند کے بابت کچھ بتائیں۔ “

” مَیں روزنامہ صداقت کا مدیرہوں، ابھی ابھی کاپی پریس کو بھیج کر آرہا ہوں۔ مجھے گھر جانے دیں، مجھے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ “ یہ کَہ کر وہ عجلت میں چل دیا۔

ہم دونوں حیراں و پریشاں رہ گئے۔ دُوسری کوئی راہ نہ پاکر ہم تھانے پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں ایک حوالدار بیٹھا ہے، جسے عرفِ عام میں ہیڈ محرر کہا جاتا ہے۔

” چاند کہاں ہے؟ کیا آپ، اسے تلاش کرنے میں ہماری کوئی مدد کریں گے! “ ہم ہیڈ محرر سے سوال کرتے ہیں۔

” فریادی کا نام؟ “ ہیڈ محرر کان میں اڑسی ہوئی پنسل نکالتا ہے اور کورا کاغذ سامنے رکھ کر پوچھتا ہے۔

” ہم نے فریاد نہیں لکھوانی، ہم چاند کے متلاشی ہیں۔ آج چودھویں کی رات ہے بلکہ رات ختم ہونے کو ہے، لیکن چاند آسمان سے غائب ہے۔ آپ ہماری مدد کریں اور بتائیں کہ چاند کہاں ہے۔ “ ہم نے کہا۔

” کتنے دنوں سے لاپتا ہے۔ “ ہیڈ محرر جھولتے ہوئے پوچھتا ہے۔

” آج رات سے۔ “ ہم نے جواب دیا۔

” آپ کو کسی پر شک ہے! “

” ہمیں کسی پر بھی شک نہیں ہے۔ “

” جائے واردات پر آپ موجود تھے؟ “

” جناب ہماری کوئی چوری نہیں ہوئی ہے، ہمیں تو چاند کی تلاش ہے۔ “

” اوئے چوری نہیں ہوئی ہے تو ہمارا قیمتی وقت کیوں برباد کر رہے ہو۔ نکلو یہاں سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھانہ ہے تھانہ، کوڑے خان کی بیٹھک نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کو دیکھو منھ اُٹھائے چلا آتا ہے۔ “

پکھیرو اپنی نیند پوری کرکے پرواز کرنے لگے ہیں اور مشرق سے اُبھرتا سورج دھیرے دھیرے تاؤکھانے لگا ہے۔ اسی اثنا میں ہمیں فیکٹری کی طرف جاتے چند مزدور نظر آتے ہیں، ہم انھیں روک کر ان سے پوچھتے ہیں :

” بھائیو! کیا آپ کو کچھ پتا ہے کہ چاند کہاں غائب ہو گیا ہے؟ “

” جناب اس میں ہمارا کیا قصور! جا کر سیٹھ صاحب سے پوچھیں۔ وہ آخر تین ماہ سے ہمیں بونس کیوں نہیں دے رہا۔ “ یہ کَہ کر وہ جلدی جلدی فیکٹری کی طرف چلے جاتے ہیں۔

ہم ایک کالج میں جا پہنچتے ہیں، جہاں ہمیں نوجوان شاگرد ”بھاگ د وڑ“ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ سالانہ امتحانات ہو رہے ہیں۔ ہم ایک طالبِ علم سے پوچھتے ہیں :

” بھائی! آپ ہمیں بتا سکتے ہو کہ چاند کہاں ہے؟ “ وہ جواب دیتا ہے : ”یہ کتنے نمبروں کا سوال ہے؟ رات جو پرچہ آؤٹ ہوا تھا، اس میں تو یہ سوال نہیں تھا۔ اب بورڈ والے بھی دھوکا دہی پہ اُتر آئے ہیں، اپنے دام پورے کھرے کرتے ہیں مگر پرچہ آدھا آؤٹ کرتے ہیں۔ ہمارے پیسے حرام کے ہیں کیا؟ یہ کَہ کر وہ نقل کرنے کے لیے“ کارتوس ”تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔

ہمیں اسی کالج میں ڈیوٹی پرمامور ایک اُستاد دکھائی دیتا ہے۔ ہم اس سے بھی وہی سوال کرتے ہیں اور وہ جواب دیتا ہے : ”بڑا مشکل پرچہ ہے۔ ہم چار اساتذہ نے مل کر حل کیا ہے لیکن پھر بھی ایک آدھ سوال رہ ہی گیا ہے۔ آپ کو کس سوال کا جواب چاہیے؟ “

ہم کالج سے نکل کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک بہت بڑے ڈاکٹر کا بورڈ نظر آتا ہے۔ ہم اس کے کلینک پر چلے جاتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں :

” ڈاکٹر صاحب ہم بہت دیر سے چاند کی تلاش میں ہیں، لیکن ہمیں کوئی بھی اس کا اتا پتا نہیں بتاتا۔ ہم تو اب مایوس ہو چلے ہیں۔ “

” مایوسی کفر ہے جناب، “ ڈاکٹر نے اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے کہا: ”یہ مرض اب لاعلاج نہیں رہا ہے، آپ پہلے یہ ٹیسٹ کروالیں، دوا کا نسخہ مَیں بعد میں لکھ دوں گا۔ “ یہ کَہ کر وہ پیڈ پر کچھ لکھنے لگا۔

”لیکن ڈاکٹر صاحب! ہم بیمار تو نہیں ہیں، ہم تو چاند کے متلاشی ہیں۔ برائے کرم ہمیں یہ بتائیں کہ چاند کہاں ہے۔ “

” دیکھیں جناب! میراوقت نہایت قیمتی ہے، مجھ سے بحث نہ کریں۔ مَیں صرف دو منٹ معائنہ کرنے کے تین سو روپے لیتا ہوں۔ آپ یہ ٹیسٹ کروا آئیں، باقی پھر دیکھیں گے۔ “ یہ کَہ کر ڈاکٹر دوسرے مریض کو بلانے کی غرض سے گھنٹی بجانے لگا۔

ڈاکٹر کے کلینک کے باہر ہمیں ایک ماں نظر آئی، جس کی گود میں ایک کم سِن بچہ تھا۔ ماں کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ ہم نے ہمت کر کے اس سے پوچھا: ”مہربانی کر کے ہمیں بتائیں کہ چاند کہاں ہے“ ماں نے جواب دیا: ”یہ تین دن سے بیمار ہے۔ ڈاکٹر تین سو روپے مانگتا ہے۔ مَیں کہاں سے لاؤں اتنی بڑی رقم! “

ہم رات بھر چاند کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے تھے اور اب آدھ دن بھی گزر چکا تھا، لیکن کوئی بھی ہمیں چاند کا پتا بتانے کو تیار نہیں تھا۔ ہم دل برداشتہ ہو کر واپس لوٹ رہے تھے کہ میرے ساتھی نے کہا: ”سنا ہے کہ اس شہر میں نیا اسسٹنٹ کمشنر آیا ہے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ شاید وہ کوئی مدد کر سکے۔ “

ہم دونوں اے۔ سی کے دفتر میں آگئے۔ اے۔ سی سے ملنے کے لیے کئی افراد انتظار کر رہے تھے۔ ان میں ایک بوڑھا ضعیف شخص بھی تھا، جس کے کپڑے میلے اور پھٹے ہوئے تھے۔ سر پر صافہ اور پیٹھ پر گٹھری باندھ رکھی تھی۔ بوڑھا اپنے ساتھی سے کَہ رہا تھا:

” اے۔ سی صاحب اب ہماری اپیل کا فیصلہ ضرور کرے گا۔ اس بار ایم۔ این۔ اے کا رقعہ جو لائے ہیں۔ “ یہ کَہ کر وہ بیڑی سلگا کر کھانسنے لگا۔ ہم جیسے تیسے کر کے دفتر کے اندر جانے میں کام یاب ہوہی گئے۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ ایک مشہور و معروف شخصیت کا پرائیویٹ سیکریٹری موجود تھا اور وہ اے۔ سی سے کَہ رہا تھا:

” صاحب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں اور مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ ہمیں پتا چلا ہے کہ چند شرپسند افراد چاند کی تلاش میں مصروف ہیں۔ صاحب کا حکم ہے کہ ایسے لوگوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ چاند کے متلاشی، سماج دُشمن عناصر ہیں اور یہ وطنِ عزیز کے اندرانتشار چاہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی چاند کی تلاش شروع ہوتی ہے، تب اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آتا ہے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ “

اسسٹنٹ کمشنر، جو اب تک سب کچھ خاموشی سے سن رہا تھا، گویا ہوا :

” جناب! آپ بالکل فکر نہ کریں۔ مَیں آج ہی یہاں دفعہ 144 نافذ کر دیتا ہوں۔ یہاں جو بھی چاند کو ڈھونڈے گا اسے بلاتاخیر گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اور کوئی حکم؟ “

ہم خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).