پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کا کوئی پرسان حال نہیں!


2008 کی عالمی کساد بازاری کے اثرات سٹیل مل پر بھی ظاہر ہوئے۔ سیاسی و ناقص انتظامی وجوہ کی وجہ سے سٹیل مل خسارے سے نہ نکل پائی۔ جب کہ مالی سال 2007۔ 2008 تک سٹیل مل منافع میں تھی اور ملازمین بونس کے علاوہ دگر ضمنی مالی فوائد و سہولیات سے مستفید ہو رہے تھے۔ گزشتہ حکومتوں کی طرف سے سٹیل مل کی پیداوار کو بڑھانے اور خسارے سے نکالنے کے لیے کئی بار عبوری مالی امداد سٹیل مل کو دی گئی، لیکن سٹیل مل کا خسارہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی گیا۔

2013 میں مسلم لیگ ( ن ) کو انتخابی کامیابی کے بعد حکومت ملی۔ حکومت نے سٹیل مل کے سربراہ کو تبدیل کیا اور 18 ارب کی عبوری مالی امداد دی۔ نئے سربراہ کی تبدیلی کے بعد بلاسٹ فرنس نمبر ( 2 ) ، جو ایک عرصے سے بند پڑی تھی۔ ملازمین کی اٙن تھک محنت کے بعد دوبارہ چلائی گئی اور ایک موقع پر جب دونوں بلاسٹ فرنسز کی پیداوار قریباً 60 % تک پہنچ گئی، تو بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہوا، جس سے دونوں بلاسٹ فرنسز کو نقصان پہنچا۔ بجلی کے بریک ڈاؤن کے بعد بلاسٹ فرنسز کی بحالی کا کام جاری تھا، کہ سٹیل مل کو گیس کی فراہمی بھی بند کر دی گئی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن سٹیل مل بند ہے۔ سٹیل مل کی بندش سے جہاں حکومت پر مالی بوجھ ہے، وہیں ملازمین بھی عرصہ دس سال سے مالی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

چونکہ 2015 سے لے کر اب تک کوئی بھی حکومت سٹیل مل کی بحالی اور نجکاری کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے معذور ہے۔ اسی وجہ سے سٹیل مل کے ملازمین کی مالی مراعات کے ساتھ دگر سہولیات بھی محدود کر دی گئیں ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ریٹائرڈ ملازمین کو 2013 سے واجبات کی ادائیگی بھی نہیں ہوئی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ریٹائرڈ ملازمین واجبات کا انتظار کرتے کرتے جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے دیدوں میں نمی کے اثرات نا پید ہیں۔ ۔ ملازمین کے ساتھ ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ ملازمین کی انا کو ٹھیس پہنچانے اور ظلم کرنے کا ٹھیکہ اور ذمہ جو حکمرانوں نے عرصہ دس سال سے لیا ہوا ہے۔ اب اس میں نجی ادارے بھی شامل ہو چکے ہیں۔

ایک زمانہ تھا، کہ شہر کراچی کے اکثر بڑے ہاسپٹلز اور لیباریٹریز سٹیل مل کے پینل پر تھیں۔ پینل ڈاکٹرز کے علاوہ بے شمار نامور فزیشنز اور سرجنز بھی سٹیل مل کے طبی پینل پر تھے۔ ۔ جب سے ادارے میں طبی سہولیات وسیع پیمانے پر محدود ہوئی ہیں، ملازمین کی بڑی تعداد مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے موت کی وادی میں جا چکی ہے۔ چونکہ سٹیل مل ملازمین کی تنخواہ دس سال سے نہیں بڑھی ہے، بلکہ بعض الاؤنسز ختم کر دیے گئے ہیں۔ ملازمین کی بڑی تعداد شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اور نجی طور پر علاج معالجہ کرانے سے قاصر ہے۔ خاص صورتوں میں ملازمین کو طبی سہولت حاصل ہے۔ جس کے حصول کے لیے بھی شدید تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔

بابر کی بیگم کے یہاں ولادت متوقع تھی۔ اور ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا تھا۔ الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ کے مطابق لڑکی کی ولادت کی خوش خبری سنا دی گئی تھی۔ بابر بھی خوش تھا، کہ بیٹے کے بعد بیٹی بھی گھر آ جائے گی اور گھر کی رونق میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ سٹیل مل کے محکمہ صحت کی طرف سے بابر کو ایک غیر معروف نجی ہاسپٹل میں آپریشن کرانے کی اجازت دے دی گئی۔ الحمد للہ، آپریشن خیریت سے ہوگیا اور بیٹی کی پیدائش عمل میں آ گئی۔ دوسری طرف ایک ملازم سٹیل مل اکبر بھی خوش تھا۔ چونکہ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی نوید سنائی گئی تھی۔ اور ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا، کہ ایک لڑکی ہے اور ایک لڑکا۔ اکبر بھی خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔ لیکن آپریشن کے بعد ہاسپٹل کے عملے نے بتایا، کہ صرف لڑکی پیدا ہوئی ہے۔

یہ خبر سن کر اکبر تو ہکا بکا رہ گیا۔ ہاسپٹل کی انتظامیہ اور عملے کو الٹرا ساؤنڈز کی رپورٹس دکھائیں۔ جو اسی ہاسپٹل کی تھیں، جہاں آپریشن ہوا تھا۔ لیکن انتظامیہ اور عملہ کسی طور ماننے کو تیار نہیں۔ جس ڈاکٹر نے آپریشن کیا، وہ ہاسپٹل سے استعفا دے گئیں ہیں۔ معاملہ پولیس تک چلا گیا اور ہاسپٹل میں چھاپوں کے ساتھ تحقیقات ہنوز جاری ہیں۔ لیکن مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ ہاسپٹل کی انتظامیہ اکبر پر صلح کا دباؤ ڈال رہی ہے۔ اکبر کا مطالبہ بس یہی ہے، کہ اس کا بیٹا اسے واپس کیا جائے۔ چونکہ مبینہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے، کہ آپریشن کرنے والی ڈاکٹر نے یہی بیان دیا ہے، کہ بچے دو ہی پیدا ہوئے تھے۔

حاضر سروس و ریٹائرڈ ملازمین سٹیل مل ایک طویل عرصے سے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ 40 سال نوکری کرنے کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو ان کے واجبات ادا نہ جائیں۔ سٹیل مل کی بحالی اور نجکاری کے بارے میں عام انتخابات سے قبل موجودہ حکمرانوں کی جانب سے مسحور کن باتوں، تقریروں اور وعدوں کے بعد ان پر عمل نہ کیا جائے۔ تو ایسی صورت حال میں ملازمین کی بے بسی و بے کسی اندازہ لگانا، کسی بھی اہل دل کے لیے چنداں مشکل نہیں۔

لگتا ہے، کہ حکمرانوں کے سینے میں دل نہیں ہے۔ جب ہی ملازمین کے سینوں پر مسلسل مونگ دلے جا رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت وقت نے سکھ برادری کو ان کے مذہبی مقام تک اربوں روپے خرچ کر کے راہ داری دی ہے اور دوسری طرف ملازمین سٹیل مل کی فریاد و آہ زاری سے حکمراں بے خبر ہیں اور چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ جب حکومت کی طرف سے ملازمین پر ظلم و ستم جاری ہو، تو نجی ادارے کیوں پیچھے رہیں۔ اکبر کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور موجودہ حکمران ہی اس کے ذمے دار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).