چیئرمین ماﺅ پر ایک حیرت انگیز کتاب


کرپشن کرپشن سُنتے کان پک گئے ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والوں نے تو لگتا ہے کوئی اور سبق پڑھا ہی نہیں بس اسی کا ڈھنڈورا پیٹے جاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ ہمارے وزیر اعظم کا دورئہ چین بھی اسی تذکرے کے گرد گھوما اور اس کا چرچا بھی خوب رہا۔ وہاں اُن کی کرپشن کے خلاف کی گئی حسرت آمیز تقریر بھی ہائی لائٹ ہوئی۔ قطع نظر اس کے کہ وہ تقریرصحیح تھی یا غلط۔ برسر موقع تھی یا نہیں اہم چیز یہ ہے کہ کیا واقعی حقیقت میں ایسا ہی ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے فرمایا تھا۔ انگریزی محاورہ ہے۔  There is more to it than meets the eye.  کے مصداق دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا چین کی تمام تر ترقی صرف کرپشن کے خلاف جنگ کی مرہون منت ہے یا اس کے کچھ اور بھی پہلو ہیں۔ ہم آج کے چین کو دیکھ کر آہیں بھرتے اور اُن کی ترقی پہ رشک کرتے ہیں مگر چین 1949ء سے لے کر آج تک ایک لمبے اور نہایت تکلیف دہ سفر سے گزرا ہے۔

گذشتہ دنوں ماﺅزے تنگ کے ذاتی معالج ڈاکٹر Li Zhisuiکی کتاب The Private life of Chairman Mao کو پڑھنے کا موقع ملا۔ میرے تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ڈاکٹر Liکو ماﺅ کے ذاتی معالج کی حیثیت سے قریباً 26سال اقتدار اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والے تمام معمولات کو بے حد قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 1976ء میں ماﺅ کی وفات کے بعد کچھ عرصہ سزا کے طور پر اُن کو مشقتی کیمپ میں بھی کام کرنا پڑا جہاں سے اُن کی جان تب چھوٹی جب ڈینگ یاﺅپنگ کی اقتدار پر مکمل گرفت ہوگئی۔ ڈاکٹر Liکو نشے کی حد تک روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ انہوں نے ان تمام ماہ وسال کے واقعات جو انہوں نے ماﺅ کے معالج کی حیثیت سے گزارے اس روزنامچے میں محفوظ کیے۔ بعد میں ڈاکٹر لی لگ بھگ 1988ء میں امریکہ منتقل ہوگئے جہاں اُنھوں نے اپنی یاداشتوں کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کرایا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہمارے محترم وزیراعظم اس کتاب سے کچھ راہنمائی لے لیتے تو شاید اُن کی تقریر مختلف ہوتی۔

چیئرمین ماﺅ ایک نہایت کرشماتی اور سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی قیادت میں چینی کیمونسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کی حکومت کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی۔ جس کے نتیجے میں 1949ء کو چین میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی۔ ماﺅ نے کیمونسٹ پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔ 1949ء سے 1976ء میں ماﺅ کی وفات تک اُنہوں نے چین اور کمیونسٹ پارٹی پر اپنے اقتدار کی گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی اور نہ ہی کسی کو آگے آنے کا موقع دیا۔ ماﺅ بنیادی طور پر دیہی چین کے کسان خاندان سے تعلق رکھتے تھے اورکمیونسٹ  IdeologyاورIntellectual Capacity  کے لحاظ سے وہ کافی مضبوط تھے۔ لیکن مکمل اقتدار کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کوعقل کل سمجھنے لگ جاتا ہے اور تنقید کو گوارا نہیں کرتا۔ صورتحال مزید ابتر ہو جاتی ہے جب آپ تمام تر اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیتے ہیں۔ چونکہ ماﺅ اب بلا شرکت غیرے چین کے مطلق العنان حکمران تھے۔ اُن کو بھی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کا مرض لاحق ہو گیا۔ 1957ء میں روس میں کیمونسٹ کانفرس کے اختتام پہ ماﺅ نے اعلان کیا کہ وہ  Great Leap Fowardکے نام سے ایک مہم کا آغاز کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں چین میں سٹیل کی پیداوار 15 سال میں برطانیہ کے برابر اور زرعی پیداوار چار گنا ہوجائے گی۔

یہ ایک نہایت بودی او ر سطحی درجہ کی سکیم تھی جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ تمام تر ماﺅ کے تخیلات پر مبنی تھی۔ جن لوگوں نے اس بودی اور بے ہنگم مہم کی مخالفت کی اُن تمام کو غدار قرار دے دیا گیا۔ اُن پہ کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ اُن کو بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ ٹھہرایا گیا۔ اُن سب کو اذیت ناک قید کی سزائیں دی گئیں۔ اس تمام مشق کا مقصد یہ تھا کہ ماﺅ اپنے مخالفین کو اپنے سامنے سے ہٹاناچاہتے تھے۔ ان کو دوسروں کے سامنے عبرت کی مثال بنانا چاہتے تھے۔ اِس میں وہ کامیاب ہوئے۔ جب تمام مخالفین کا بندوبست ہو گیا تو بڑی دھوم دھام سے گریٹ لیپ فاروڈ کا آغاز ہوا۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پورے چین میں دیسی بھٹیاں لگا ئی گیئں اور کیمونسٹ پارٹی کے عہداران نے عام چینیوں کے روز مرہ استعمال کے برتن اور اُن کے گھر موجود لکڑی کی ہر شے اُن بھٹیوں میں جلا کر راکھ کروا دی۔ اب ان عام دیسی بھٹیوں میں اعلیٰ درجے کی سٹیل تو کیا بننی تھی اُلٹا عام چینیوں کے گھروں میں برتن بھی نہ رہے۔ زرعی اصلاحات کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب سارے چین کو سٹیل پیدا کرنے پہ لگا دیا تو اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسان کھیتوں سے فصل تک نہ سمیٹ سکے۔ اور ساری کی ساری فصلیں ضائع ہو گئیں۔

 1961ءتک چین شدید قحط کا شکار ہو گیا۔ سٹیل کی پیداوار تو کیا بڑھنی تھی کھیتی بھی لُٹ گئی۔ اس تمام تر عرصہ میں چیئرمین ماﺅ کو سب اچھا ہے کا ڈرامہ بھرپور طریقے سے دکھایا گیا۔ ظاہر ہے کہ ہر کو اپنی جان عزیز تھی۔ جب صورتحال اِس قدر سنگین ہو گئی کہ بیجنگ کے شہریوں نے بھوک کی وجہ سے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تو ماﺅ کو احساس ہوا کہ کہ اُن کی بے سوچی سمجھی اور بیہودہ مہم نے ایک عام چینی پہ کیا ظلم ڈھایا۔ تب اُنھوں نے خود باہر نکل کے مخالف صوبوں کے دورے کیے تو اندازہ ہو گیا کہ کس وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیئر مین اپنی غلطی تسلیم کرتے اور اہل لوگوں کو آگے لاتے تا کہ حالات کچھ بہتر ہوتے۔ مگر یہ اقتدار اور اس کا نشہ ایسی ظالم چیز ہے کہ انسان ہر حد پار کر جاتا ہے۔

 اب ماﺅ کے اشارے پہ ایک اور مہم شروع کی گئی۔ بے خبر چینی عوام کو ایک نئی گولی یہ دی گئی کہ سکیم تو بہت اعلیٰ تھی اور چیئر مین کی نیت بھی لیکن کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کی کرپشن کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی۔ یہ تمام کرپٹ عہدیداران اِس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ ایک دفعہ پھر سے وہی ڈرامہ دہرایا گیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ تب سکیم کے مخالفوں کی سر کوبی کی گئی۔ اب یہ تلوار اُن پہ چلی جنھوں نے اِس سکیم کی کامیابی کے لیے انتھک محنت کی۔ اب اگر بیج ہی خراب ہے تو فصل نہ ہونے پر بے چارے کسان کا کیا دوش؟ اِس دفعہ اِس مہم کو ماﺅ کی بیگم نے لیڈ کیا اور پارٹی عہدیداروں کی بلی چڑھانے کے لیے طلباء کو استعمال کیا گیا۔ Cultural Revolution  کے نام پہ طلباء نے وہ تباہی مچائی کہ خدا کی پناہ۔ کس طرح 50، 50 سال کی عمر کے لوگوں کو ٹانگ برابر لونڈوں نے سڑکوں پہ گھسیٹا اور تذلیل کی یہ ایک الگ داستان ہے۔ اور نعرہ کیا تھا کرپشن کے خلاف جنگ۔ کیمونسٹ پارٹی کے عہدیدار کرپٹ تھے۔ اُن کو سزا دینا لازم۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا وہی ڈھاک کے تین پات۔ جب اہل افراد کو کھڈے لائن لگا دیا جا ئے اور کرپشن کی تلوار ہر ایک کے سر پر ٹانگ دی جائے تو کسی نے کام خاک کرنا ہے۔ مختصراً یہ کہ چین کے حالات دگرگوں تھے۔ جب تک اقتدار چیرمین ماﺅ کے اختیار میں رہایہ ایسے ہی رہے۔ پھر جب چیرمین صاحب کا 1976 ءکا انتقال ہو گیا۔ ایک نئی قیادت کو اُبھرنے کا موقع ملا تو چین کا صحیح سمت میں سفر شروع ہوا۔

 میر ا تو جی چاہتا ہے کہ میں اپنی پوری قوم کو یہ کتاب پڑھواﺅ ں اور اُن کو بتاﺅں کہ ملکوں کی سیاسیات، اقتصادیات اور معیشت کے مسائل اتنے سادہ نہیں ہوتے جتنے ہمارے لیڈر ہم کو بتاتے ہیں۔ بجائے ہر وقت کرپشن کی ڈگڈگی بجانے کے اور اپنی تمام تر ناکامی کا ملبہ میڈیا یا اِدھر اُدھر ڈالنے کے اگر ہماری حکومت مسائل کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ پھر اُن کے حل کے لیے اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپے۔ اُن کو کام کرنے کی آزادی دے تب تو ہمارے حالات سدھرنے کی کوئی اُمید ہو سکتی ہے وگرنہ اُلٹے سیدھے راگ آلاپنے سے نہ تو کبھی مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ کبھی ہونگے بھلے ہی آپ 500 لوگوں کو چھوڑ، پانچ لاکھ لوگوں کو پھانسی لگا دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).