کیا ہم بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی گئے گزرے ہیں؟


کسی بھی مریض کا شافی علاج نا ممکنات میں سے ہے اگر اس کے مرض کی تشخیص نہ ہو جائے اور یہ معلوم نہ کر لیا جائے کہ اس مرض کا سبب کیا ہے۔ یہی حال اقوام کا بھی ہوتا ہے۔ جب تک کسی قوم کے زوال، اس کی پستی اور آئے روز پیش آنے والے مسائل کا حقیقی یا بنیادی سبب معلوم نہ ہو جائے اس وقت تک وہ ٹامک ٹوئیاں تو مارتی رہے گی لیکن پوری قوت کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل نہ ہو سکے گی۔ اپنے عمل کا حساب، جسے خود احتسابی کہا جاتا ہے، آ سان کام نہیں۔ لیکن اس مشکل کو آسان بنائے بغیرمسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ آئے روز نئے نئے مسائل پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی عمر اب 72 سال سے زائد ہے۔ خطے کے کئی ممالک اسی عمر کے ہیں۔ بنگلہ دیش تو ہمارے جسم سے جدا ہونے والا ٹکڑا ہے جس کی عمرصرف اڑتالیس سال ہے۔ کیا وجہ ہے کہ یہ نو زائیدہ ملک بھی ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے؟ دنیا بھر کے سٹورز میں اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات کے انبار لگے ہیں جبکہ ”میڈ ان پاکستان“ کا لیبل دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں۔

ہم مانگے تانگے کے پیسے اپنے لاکرز میں رکھ کر بغلیں بجاتے ہیں کہ ہمارے ذخائر دس گیارہ ارب کو پہنچ گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ذخائر 33 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ بنگلہ دیش کی برآمدات چالیس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں۔ جبکہ ہم رو پیٹ کر اور اپنے روپے کی قدر گرا کر بھی ابھی تک 20 ارب ڈالر کے آ س پاس منڈلا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش تیز رفتاری سے ترقی کرتے ممالک کی صف میں ساتویں نمبر پر ہے۔ ہم پتہ نہیں کہاں ہیں۔

بنگلہ دیش کی شرح نمو (GDP) 7.3 فی صد سے زائد ہے۔ ہم جو ڈیڑھ دو برس پہلے 6 فی صد کے لگ بھگ پہنچ گئے تھے۔ اب پھر لڑھک کر دو فی صد کے قریب رہ گئے ہیں۔ وہاں مہنگائی کی شرح 5 فیصد ہے، ہم 13 فی صد کو چھو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کا ٹکہ، ہمارے روپے سے زیادہ مضبوط ہے۔ ایک بنگلہ دیشی ٹکہ، 1.83 پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ پاکستان میں ایک امریکی ڈالر 156 روپے کا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں ڈالر کی قیمت 84 ٹکے ہے۔

مجھے تو یہ لکھتے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ دو سپر پاورز کی تباہیوں، خانہ جنگیوں اور انتشار کے مارے ہوئے افغانستان کی کرنسی کی قیمت ہم سے دگنی ہے۔ ایک افغانی دو پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ افغانستان کی کرنسی میں ایک ڈالر 78 افغانی میں مل رہا ہے یعنی ہم سے تقریبا نصف۔ بھارت سے موازنہ جانے دیں، جہاں ایک بھارتی روپیہ تقریبا سوا دو پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ وہاں ایک امریکی ڈالر 71 بھارتی روپوں کے برابر ہے۔ بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے چار سو ارب ڈالر کو چھو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے اقتصادی بائیکاٹ اور امریکہ کے جبر کا شکار ایران 132 ارب ڈالر سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ اس کا ریال ہم سے زیادہ مضبوط ہے اور ایک سو اٹھارہ ریال کا ایک ڈالر لیا جا سکتا ہے۔

معیشت تو صرف ایک پہلو ہے۔ ہم نے تو ابھی تک قوم کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے المیے، سقوط ڈھاکہ کی تفصیلات سے بھی آگاہ نہیں کیا۔ حمود الرحمن کمشن رپورٹ پوری طرح سامنے نہیں آئی۔ جو آئی اس کی کسی ایک سفارش پر بھی عمل نہیں کیا۔ ہم نے اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد مارشل لاء لگنے کے اسباب کیا ہیں۔ کیا یہ صرف سیاستدانوں کی نا اہلی ہے یا اس کا محرک کچھ اور بھی ہے؟ ہم آج تک ایسے انتخابات کو ترس رہے ہیں جنہیں سو فی صد غیر جانبدارانہ اور منصفانہ کہا جا سکے۔

آخر ایسا کیوں ہے؟ ہم کبھی الیکشن کمیشن مضبوط بناتے ہیں۔ اس کے ارکان کے انتخاب کا نہایت ہی زبردست میکانزم وضع کرتے ہیں۔ پھر نگران حکومتوں کا پورا نظام لاتے ہیں جو مرکز اور صوبوں میں انتخابی عمل کی نگرانی کرتا ہے۔ کبھی بائیو میٹرک لے کر آتے ہیں۔ کبھی آر۔ ٹی۔ ایس لا کر خود کو اطمینان دلاتے ہیں کہ اب تو دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن انتخابات کی شب، نتائج مرتب ہوتے ہی آر۔ ٹی۔ ایس فیل ہو جاتا ہے۔ ہم یہ سراغ بھی نہیں لگاتے کہ یہ سسٹم کیوں فیل ہوا اور اگر ہوا تو نتائج پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔

مجھے ذاتی طور پر افسوس ہوا کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ آئندہ فوج انتخابی عمل سے دور رکھی جائے۔ کبھی صورت حال برعکس تھی۔ مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں تاکہ غیر جانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایسا کیوں ہوا؟ آپ کو کسی ٹی۔ وی پروگرام میں یہ بحث نظر نہیں آئے گی کیونکہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور خود احتسابی کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ نواز شریف نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ چلو میری تو اسٹبلشمنٹ سے نہیں بنتی لیکن کیا پاکستان کے سارے وزرائے اعظم بھی نواز شریف تھے کہ کسی ایک کو بھی اپنی آئینی معیاد پوری نہ کرنے دی گئی؟

بھارت کے انتخابات کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری مشق خیال کیا جاتا ہے۔ وہاں کوئی نگران حکومت نہیں بنتی۔ برسر اقتدار جماعت ہی انتخابات کراتی ہے۔ وزیر اعظم اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ پھر بھی الیکشن کا نظام اتنا شفاف ہے کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ سب نتائج کو تسلیم کر لیتے اور جیتنے والے کو مبارک باد دے کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کسی کو کوئی شکایت ہوتی بھی ہے تو وہ آئینی و قانونی طریقے سے حل تلاش کرتا ہے۔

ہمارے اجتماعی زوال کے اور بھی لا تعدادا شاریے ہیں۔ تعلیم کی زبوں حالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں زبردست کٹ لگا دیا گیا ہے۔ ایسے میں کہاں کا عالمی معیار اور کہاں کی تحقیق۔ دنیا کی صف اول کی درس گاہوں میں ہمارا کوئی نام و نشان تک نہیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے ان کے بچے باہر جا کر تعلیم حاصل کر تے ہیں اور پھر وہیں اعلیٰ قسم کی ملازمتیں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ صحت کا شعبہ بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے۔

ایک بڑا مسئلہ بے یقینی کی صورتحال کا ہے۔ جب زندگی کا ہر شعبہ بے یقینی کا شکار ہو تو، باہر کی سرمایہ کاری کہاں سے آئے گی۔ خود پاکستان کا سرمایہ کار بے خطر ہو کر کیسے اپنا پیسہ لگائے گا؟ ہر حکومت کے آنے کے بعد ہم اسی طرح کے بحران میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس کا ایک ہی بڑا سبب ہے۔ اور وہ یہ کہ انتخابات پر قوم کا یقین نہیں ہوتا۔ یہ یقین کیوں نہیں ہوتا۔ اس کا سراغ لگانے کی نہ ہمیں ضرورت ہے نہ حوصلہ۔ اس موضوع پر بات کرتے ہماری زبان جلتی ہے۔

خارجہ معاملات بھی بس کھیل کود بن کر رہ گئے ہیں۔ بھارت عملا مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر گیا ہے۔ ہم کچھ نہ کر سکے۔ اور تو اور ہمیں ایک قرار داد منظور کرانے کے لئے 27 ممالک کی حمایت تک حاصل نہیں ہو سکی۔ اسلامی ممالک نے بھی منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ کیا وزیر اعظم سمیت کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کرائیں؟ نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ ہماری تاریخ کا دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ ہم نے اس سانحے کو بھی ہنستے کھیلتے برداشت کر لیا ہے۔ اس لئے کہ خود احتسابی ہمارا شیوہ نہیں۔ اپنی تقریریں اپنی ہی قوم کو سنا سنا کر لوریاں دیتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا عش عش کر رہی ہے۔

اس طرح کی صور تحال کسی بھی ملک کے لئے اچھی نہیں ہوتی۔ ہم تو دشمنوں میں گھرے ہیں۔ ایک طرف آئی۔ ایم۔ ایف کا شکنجہ ہے۔ دوسری طرف فاٹف ( ایف اے ٹی ایف ) کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اور سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ ان تمام معاملات کا جائزہ لینا ہماری ترجیحات میں شمار ہی نہیں ہوتا۔ ”احتساب“ کا نعرہ پہلی ترجیح ہے جس سے مراد سیاسی حریفوں کو جیلوں میں ڈالنا ہے۔ ملک کو در پیش لاتعداد مسائل سے نبٹنا اور احتساب کا دائرہ وسیع کر کے خود احتسابی تک لے آنا، ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).