کارونجھر؛ ہنستا و گنگناتا پہاڑ


تھر کے دلکش، پرسوز اور سر سبز صحرا اور گھنے رن کچھ کے سنگم پر موجود برسوں پرانے بے حد حسیں کارونجھر کے پہاڑ سے گرینائیٹ اور دیگر قیمتی ذخائر لینے کے لئے سرمائیدار کمپنیاں لیز لے کے پہاڑوں کو کاٹ رہی ہیں۔ جس کے خلاف مقامی شاعر، لکھاری، صحافی اور سماجی لوگون کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان سے فطرت سے محبت کرنے والے لوگ سراپا احتجاج کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ دن پہلے یے ٹاپ ٹرینڈ بھی رہا اور سندھ اسمبلی کے فلورپر بھی اس کے خلاف آواز گونجی۔ اوائلی دنوں میں تو ڈر و خوف کے مارے لاچار لوگ اپنی بے بس آنکھوں سے اپنے قومی اثاثے کو سرمائیداروں کے ہاتھوں اجاڑتا دیکھ کرخاموش تھے، پر نہ تو کچھ نوجواں اور مقامی صحافی کبھی کبھار ٹھرے پانی میں پتھر پھینکتے رہتے تھے۔

ان دنوں میں میرا بھی نگرپارکر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ کچھ ساتھیوں سے اس معاملے پر بات بھی ہوتی تھی۔ میں محسوس کرتا تھا کہ میری اس بات پرکئی ساتھیوں کی نظریں جیسے مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ گر یے کام اتنا آساں ہے تو خود کیوں نہیں کرتے؟ باتیں ان کی بھی ٹھیک تھی، یے کام میرے لیے اس وجہ سے بھی ضروری تھی کہ میرا بابا (فقیر مقیم کمہار) وہ واحد بندہ تھا جو ان دنوں میں بھی ہر فورم پر نہ فقط کارونجھر پہاڑ بچانے کی بات کرتا تھا یا اخباروں میں لکھتا تھا بلکہ اس نے توکارونجھور کو کاٹنے والوں کے خلاف سیمینارس اور کانفرنرنسز کا بھی اہتمام کیا پردھن اور دولت کے پوجاریوں کی ایک ہی بھیٹک ہوئی اور فطرت کا عاشق اکیلا تھا۔

بھری بزم میں صرف اللہ رکھیو کھوسوبابا فقیر مقیم کے ساتھ ہوتا تھا جو آج بھی کارونجھر کا فریادی ہے اور نوجوان نسل کے ساتھ کارونجھر کے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ سائیں پریم شوانی نے بھی اپنی شاعری میں اس مسئلے کا ذکر بارہا کیا۔ دکھ کی بات تو یے تھی کہ کچھ مقامی اور پڑھے لکھے لوگ ان کا ساتھ دینے کے بجائے مزاک اڑاتے پھرتے تھے اس قدر کہ ایک دوست نے لطیفہ بنا کے سنایا کہ ایک مرتبہ جب فقیر مقیم کمہار نے تقریر کرتے کہا، ’کارونجھر کو قتل کیا جا رہا ہے، تو ایک نوجوان نے پوچھا کہ کارونجھر نامی شخص کہاں پر ہے جسے قتل کیا جا رہا ہے؟ اس سوچ اور حالات کے باوجود بھی دو، چار لوگ کارونجھر کے تحفظ اور بقا کی باتیں اور مطالبے کرتے رہے۔ ان چند لوگوں نے کارونجھر پر ڈیم بنانے کی بات کی تاکہ ضایح ہونے والا پانی اسٹور کیا جا سکے۔

خیر مطالبات مانتے ہوئے ڈیم تو بنائے گئے پر بدقسمتی سے ان کا اسٹرکچر اس طرح کا ہے جو حالیہ سال اتنی شدید بارشوں کے بعد بھی پانی کی ایک بوند جمع نہ ہو سکی۔ حکومت سندھ کو چاھیئے کو ڈیم بنانے والے ادارے سے ان کے اسباب معلوم کیے جائیں کہ اتنے پیسے خرچ کرنے کے باوجود پانی کیوں نہیں اسٹور ہو رہا؟ کچھ دنوں سے جب، ْ سیو کارونجھر یا ’کارونجھر کے فریادی بنیں، کی مہم چلی تو نگرپارکر سمیت پوری سندھ کے اجتماعی شعور نے خوف کی دیواریں گرا کر میدان میں نکل آئے اور پتھروں کے گلاب کو بچانے کی بات کی۔

ہوا یے کہ لوگوں کے اندر خوف کے بادل پگھل گئے، انہوں نے یے بھی کہا کارونجھر پر نہ صرف انسانوں کی زندگی کا گزر سفر ہے پر یے جنگلی حیات کا بھی دیس ہے، جہاں مختلف اقسام کے جاندار بستے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے قانون کے موجب ان کی بھی اتنی ہی حیثیت ہے جتنی انسان کی۔ فطرت کے دشمنوں نے، کارونجھر میں بسنے والے ان بے زباں جانداروں کی زندگی بہت ہی متاثر کی ہے۔ ان میں سے مور تو وہ حساس پرندہ ہے جس کے اندرمیں گرینائیٹ نکلتے وقت کے دھماکوں سے ہی لرزش پڑ جاتی ہے۔ تاریخ کے لوگ کہتے ہیں کہ جب سکندر بادشاہ نے یہاں سے مور کے تحفے اپنی ماں کو بھیجے تو اس کی ماں نے سکندر سے کہاں جس دیس کے پرندے اتنے خوبصورت ہواس دیس کے لوگوں کو قید مت کرنا۔

کچھ برس پہلے جب کارونجھر کی چوڑیو کے پہاڑ سے کٹائی کی گی تو وہاں کے نوجوان سماجی کارکن ویرجی کولہی ( صوبائی مشیر برائے انسانی حقوق ) سپریم کورٹ میں فریادی بن گیا اور سپریم کورٹ نے 2015 میں ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کو تحریری حکم نامہ جاری کیا کہ پہاڑ کی کٹائی کو فورن روکہ جائے، لحذا ہوا یے کہ وہاں سے کام بند ہوکے کھارسرسے کارونجھر پہاڑ کی دوبارہ کٹائی شروع ہوئی۔ کہتے ہیں کہ حالانکہ ان پتھر کو کاٹنے والی کمپنی کی اپنی لیز بھہ نہیں بلکہ کوہ نور نامہ کمپنی کی سب لیز پر کام کر رہی ہے جبکہ کوہ نور کمپنی کو وفاقی حکومت کی طرف سے لیز دی گئی ہے۔ سندھ حکومت کے قانون، مائینگ کنسیشن آرڈر کی شق 25 کے تحت کارونجھر کی سب لیزیں رد کی گئی ہے۔

Restriction on grant of exploration licenses or mining lease so ever exploration licenses or mining lease what so ever shall be granted in the karoonjhar range mountains of nagar parkar

سندھ حکومت کے مائینز کے وزیر صاحب نے ایک انکوائری لیٹر لکھا ہے اور کہا ہے کہ گر یے کام غیر قانونی طور ہو رہا ہے تو اس کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ خدارا! جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم اور سندھ حکومت کے قانون کے مطابق کارونجھر کے پہاڑ کو کاٹنا غیرقانونی ہے تو پھر آپ یے کیوں کھتے ہیں گر یے غیر قانونی ہے تو؟ مطلب آپ ان لوگوں کو کس طرح قانونی شکل میں لے آنے کی بات کرتے ہیں۔

کارونجھر کا پہاڑ کوئی عام پہاڑ نہیں یے تو سندھ کی صدیوں پرانی تاریخ اور قومی اثاثہ ہے۔ ہزاروں لوگوں کی محبت کا گھر اور لاکھوں لوگوں کی عبادت گاھ ہے۔ جین اور ہندودھرم کے پرانے مندر اور ایک ہے رات میں تعمیر کی گئی محمود بیگڑی کی بھوڈیسر مسجد سمیت ان گنت تاریخی مقامات کارونجھر کے پہاڑوں میں ہیں۔ اس پہاڑ میں ہندو دھرم کے 108 دھرمی آستان ہیں، جس میں ساڑدرو دھام تو گنگا کے بعد سب سے بڑا دھام ہے جس میں ہندو اپنے بڑوں کی ارتھیوں کی خاک کی ارپنا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ کارونجھر پہاڑپارکر میں بسنے والے تمام جاندار جس میں انسان، جانوراور جنگلی حیات ہیں اس کا وطن ہے اور پارکر میں میٹھا پانی کا واحد وسیلہ بھی یہی پہاڑ ہے۔ پارکر کے لینڈ اسکیپ کے حوالے سے میٹھا پانی بھی صرف وہیں ہے جہاں کارونجھر اور اس کے ساتھ والے سارے پہاڑ جیسے چوڑیو، کاسبو، کھارسر، ڈینسی، چھٹیندا اور دیگر ہیں۔ یے پہاڑ سرمائیداروں کے لیے تو گرینائیٹ ہے پر پارکر کے باسیوں کے لیے روزگار اور مال مویشی کے لیے چراگاہ ہیں۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ کارونجھر ہر روز سوا سیر سونا دیتا ہے، اس کا مطلب یے ہے کہ گوند، گگر، شہد اور جڑی بوٹیوں میں سے اتنی آمدنی ہوتی ہے کی اس کی قیمت سوا سیرسون کے برابر ہے۔

اس پہاڑ سے پیسے کے پوجاریوں نے گگرال کے درخت سے کیمیکل کے ذریعی گگرال نکال کے ہزاروں درخت ختم کر دیے ہیں۔ سردی کی موسم شروع ہوتے ہی مقامی پٹیل علاقوں کی ورہاست کرتے ہیں۔ اس غیر قانونی عمل پر ایکشن لینے کے بجائے فاریسٹ اور پولیس ڈپارٹمینٹ لاکھوں روپے رشوت لیتے ہیں۔ ہر سال کی طرح ایسا لگ رہا ہے کہ اس سال بھی یہی ہوگا، مقامی لوگوں کے شدید احتجاج کے باوجود 144 کے لیٹر کے سوا سرکار کچھ نہیں کرتی جو گگرال کے درخت درندوں سے بچ جائیں۔

یہاں کے مقامی باشندوں نے ڈیم کا مطالبہ بھی اس لیے کیا تھا کہ پہاڑوں سے آتا پانی رن کچھ میں جا کے ضایع نہ ہو اور زیر زمین پانی کی سطح بھی برقرار رے۔ پر سرکار کے بنائے ہوئے مختلف ڈیمز کے لیے کارونجھر پہاڑ کے مختلف 20 جگھاؤں سے پتھر نکالے جا رہے ہیں، اور وہ اس طرح کاٹے جا رہے ہیں جس سے پہاڑ کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے۔ وہ ایک خوبصورت پہاڑ سے ریت کا ٹیلہ بنے جا رہے ہیں۔ وفاق اور سندھ سرکار کو چاھیے کہ صرف اخباری اور سوشل میڈیا کے بیانات کے بجائے عملی اقدامات اٹھائیں۔ کارونجھر کو نیشنل پارک کا درجہ دے کر اس میں بسنے والے تمام جنگلی حیات کو، نایاب درختوں اور پودوں کی بقا اور اسے بچانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ ۔

تھرپارکر کے منتخب نمائندگان سنجیدگی سے قانونی چارہ گری اورکارونجھر کو اجاڑنے والوں کے خلاف ہونے کے بجائے اپنی سوشل میڈیا کی ٹیموں کو، کامووروں کے ہاتھون نکلے ہوئے فارملٹی والے لیٹرز کو کیش کرانے میں لگا دیے ہیں۔ خدارا! تھر کے مسکین اور بے سہارا لوگوں نے آپ کو اس لیے منتخب نہیں کیا کہ آپ بھی ان کاموروں کے فالتو لیٹرز پر اپنی سیاست کریں پر نہ توآپ کو اس لیے ووٹ دیے کہ ان کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑیں، قومی اثاثے کو بچانے اور کارونجھر کو نیشنل پارک کا درجہ دینے کی بات کریں۔

جو یے کام کرے وہ اپنی آنے والی نسل کو بھی فخرسے کہے کہ یے کام میری کاوشوں سے ہوا، بے شعور لوگوں کا ساتھ دے کے جگ ہنسائی نہ کریں۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، یے سوشل میڈیا کا دور ہے، تھر کا نوجوان باشعور ہو چکا ہے، یہ وہ دور نہیں کہ خلق قدرت کو مطئمن کرنے کے لیے ٹیلیفون کی وائر نکال کے بڑے قہقہقں کے ساتھ بیوروکریسی کو ڈنڈا دینے کی باتیں ہوتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).