محبوبہ کے نام ایک خط


سنو جاناں!

یہ جو تم خواہشات کی چادر اوڑھے ننگے پیر اس کٹھن صحرائی سفر پر نکل چکی ہو، جانے سے پہلے اپنے سے متعلقہ چند لوگوں کو اپنے سفر اور منزل کی معلومات دیتی جاوُ۔ اس تھکادینے والے سفر میں بیچ راستے سے مایوسی لے کر پلٹنا کیسا غضب ناک ہے۔ میں تو اس اذیت سے واقف ہوں۔ تنہائیوں سے محبت کرنے والے تو کسی طرح ان سے مرضی مطلب کے لوازمات ڈھونڈ نکالتے ہیں مگر اس کو آسیب سمجھنے والوں کے ساتھ یہ جو برتاؤ کرتی ہے وہ بعد میں کسی کا ہاتھ تھامنے کے ہرگز قابل نہیں رہتے۔ یہ بات محض میں تمہیں اپنے تجربے سے بتا رہا ہوں جانتا ہوں تمہارے کانوں پہ جوں تک نہ رینگے گی۔ تمہیں تو آگ میں کود کر اس کی حدت کو جانچنے کا ابتدا ہی شوق ہے۔

کل رات میں نے تم کو خواب میں دیکھا۔ خواہشات کا چولا اوڑھے جو تم گھر سے نکلی تھی اس کی جگہ فتح کے مخملی لباس نے لے لی تھی۔ تمہاری گلابی آنکھیں جو ہمیشہ امیدوں کے دیو ں سے جلتی رہتی تھیں چاہے جانے کے نشے سے مغرور ہو چکی تھیں۔ میں اس نشے کی کیفیت سے واقف ہوں یہ ایک بار تو انسان کو غرور کی بلندیوں پر پہنچا کر اس کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں کو ماوُف کر دیتا ہے۔ تمہارے جسم کا انگ انگ خوابوں کی تکمیل کے نشے سے کھل اٹھا تھا۔ افسوس کے کسی وقت اس خواب کا حصہ میں بھی تھا، جو آج تکمیل کی شکل اختیار کیے تمہیں بہکا رہا تھا۔

تمہارے ہاتھ میں موجود سرخ گلاب وہ اس وقت کہاں سے آیا؟ میں اب بھی اسی سوچ میں مبتلا ہوں۔ مگر وہ چنبیلی کا پھول جو میں نے تمہارے جْوڑے میں لگایا تھا مجھے اس بھیڑ میں کسی کے پیروں تلے روندا ہوا ملا تھا۔ میں اس کی لاچاری اور بے بسی محسوس کر سکتا ہوں،

مجھے اس پر بے پناہ ترس آیا تھا۔

میں نے تھکے ہوئے قدموں سے آگے بڑھ کر مرجھائی ہوئی پتیاں کتنے بجھے ہوئے دل سے سمیٹیں، تمہیں شاید اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے۔ روشنیوں کی اس دنیا میں کامیابیوں کے نئے سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ یقین مانو تم سے زیادہ میں اس بات کی خوشی محسوس کر رہا تھا۔

نہ جانے پھر کیا ہوا میں شاید خواب کے چند لمحے بھول چکا ہوں۔ شاید تم نے اس گلاب کو اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔ تمہارا پر سحر حسن، گلابی آنکھیں اور تڑپا دینے والی جوانی اسے چھوتے ہی اپنے جوبن پر آ چکی تھیں۔

محض چند لمحوں میں ہی فتح کے یقین سے لبریز آنکھیں اچانک سے پھیکی پڑ گئیں۔ کسی نے تم سے وہ گلاب چھین لیا تھا۔ شاید اس بھیڑ میں موجود وہی ظالم وقت تھا جس کے قدموں میں تم نے میرا دیا ہوا چنبیلی کا پھول حقارت سے پھینکا تھا۔

تم اب کے خالی ہاتھ کھڑی تھی اور اس ظالم وقت نے گلاب کی پتیوں کو مسل کر بالکل تمھارے والے انداز میں ہی میرے قدموں میں ڈالا تھا۔

یہ بات بیان سے باہر ہے کہ اس گھڑی میرے وجود میں کیا قیامت اتری تھی۔ میں تمہارے غرور کے ٹوٹنے کی آواز سن رہا تھا۔ تمہاری کبھی نہ جھکنے والی صراحی گردن کو شکست کے دکھ، بے یقینیوں اور مایوسیوں نے نے آخرکار جھکا ہی دیا تھا۔ مکافات کا عمل بھی کیسا توڑ دینے والا ہوتا ہے نا؟ ؟ لوگوں کی بھیڑ یک دم سے چھٹ گئی تھی۔

تمہارا حسن اور جوانی زنگ آلود ہونا شروع ہوگئے تھے۔ میں اپنے خلوص کی چاشنی تم پر ڈال رہا تھا کہ شاید کسی طرح تمہیں بچایا جا سکے۔ حسین چہرے کیسے پرستش کی تمنا میں مرے جاتے ہیں میں اس بات کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں مگر اب کے بہت دیر ہو چکی تھی اور تم اس تباہ کن تاریکی میں غرق ہو چکی تھی۔

اچانک میری آنکھ کھل گئی میری آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ یہ آنسوتمہیں تمہاری جوانی کے جوبن پر کھو دینے کے غم کے ہی تھے نا؟ ؟

میں اس خوف میں مبتلا ہو ں کہ کہیں یہ خواب حقیقت کی صورت دھاڑے دبے قدموں تمہاری زندگی میں قدم نہ رکھ دے۔ میں کل رات سے ہی شدت سے تمہاری خوشیوں کے لئے دعا گو ہوں اور اس بات کی امید کرتا ہوں کہ خوابوں کی تکمیل کے لیے چنا گیا تمہارا یہ رستہ تمہارے لیے درست انتخاب ثابت ہو۔

تمہارے آنچل کی شکنیں اور کاجل کی گہری لکیر یں میرے ساتھ کے نہ ہونے کے باوجود بھی کیا اتنی ہی سحرانگیز ہیں؟ ؟ تمہاری آنکھوں میں موجود گہرائیوں اور پراسراریت میں دلکشی کیا اب بھی بدستور برقرار ہے؟

بس انھی سوالات کا جواب جاننے کے لیے تمہیں خط لکھا ہے شاید تم مجھے کسی انداز میں تسلی دے کر اس رنجیدگی سے نکال سکو۔

تمہارے جواب کا منتظر

ایک مسافر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).