جیکولین کینیڈی کا گلابی لباس اور بے نظیر بھٹو کا نیلا جوڑا


دوستوں سے ملاقات طے تھی!

ہم لباس منتخب کرنے کی شش وپنج میں تھے کہ نسیم آپا چائے لےآئیں اور یہ کہتی ہوئی تشریف لے گئیں کہ میں نے آپ کا گلابی جوڑا نکال دیا ہے وہ پہن لیجیے۔

” گلابی کپڑے” ہم زیر لب بڑبڑائے اور آج تاریخ کیا ہے ” بائیس نومبر “

چھن سے تاریخ کے اوراق سے ایک یادگار گلابی لباس ہماری آنکھوں کےسامنے آ ٹھہرا۔ تو چلیے، تاریخ کا سفر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ آج کے دن کس نے گلابی لباس بہت ارمانوں سے پہنا جو بعد میں ایک المناک انجام سے دوچارہوا اور تاریخ کا حصہ بنا۔

تاریخ میں بدقسمت قرار دیا جانے والا یہ لباس مشہور عالم فیشن ڈیزائننگ کمپنی ” شینل ” نے بنایا تھا۔ اسے امریکہ کی خاتون اول جیکولین کینیڈی نے بائیس نومبر 1963 کی صبح زیب تن کیا تھا، جب وہ اپنے شوہر صدر جان ایف کینیڈی کےساتھ ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس کے سرکاری دورے پہ گئیں۔

جیکولین کینیڈی کا ذکر ان خواتین میں ہوتا ہے جو شہرت کے لئے اپنے شوہرکینیڈی کی محتاج نہیں تھیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے فوٹوگرافر تھیں اور انتہائی خوش لباس اور خوش شکل ہونے کی بنا پر فیشن اور کلچر کا بین الاقوامی استعارہ سمجھی جاتی تھیں۔

اکیس نومبر، انیس سو تریسٹھ کی شام صدر کینیڈی نے جیکولین سے کہا،

“میں چاہتا ہوں تم کل ڈیلس میں ہونے والے ظہرانے میں منفرد نظر آؤ، ان تمام خواتین میں سے جو قیمتی منک کوٹ میں ملبوس ہوں گی۔ کیا ہی اچھا ہو اگرتم اپنا گلابی لباس پہنو اور دکھا دو کہ سادگی میں شاندار نظر آنے کے لئے ہیرے جواہرات کی ضرورت نہیں ہوتی”

یہ گلابی لباس جیکولین چھ مختلف مواقع پر پہن چکی تھیں اور صدر کینیڈی کےساتھ ساتھ ان کا بھی یہ پسندیدہ لباس تھا۔ لیکن کسے خبر تھی کہ یہ لباس ایک المیے کا حصہ بن کے تاریخ میں امر ہو جائے گا۔

ڈیلس پہنچنے پہ جیکولین اور کینیڈی ایک نیلی کھلی لیموزین میں سوار ہوئے۔ جیکی کینیڈی کھلے آسمان تلے روشن صبح میں نیلے کالر والے گلابی لباس میں دمک رہی تھیں۔ سڑک پر دونوں طرف لوگ استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ اور پھر ییک گولی چلنے کی آواز آئی اور ہر طرف خون بکھر گیا۔

” یہ منظر ابھی بھی میری آنکھ میں زندہ ہے۔ کار کی پچھلی سیٹ پہ گلابی رنگ کا ڈھیر تھا جیسے گلابی پھول ہر طرف بکھرے ہوں۔ یہ جیکی تھیں جو اپنے خون آلود شوہر کے جسم پہ جھکی ہوئی تھیں “

نائب صدر لنڈن جانسن کی بیگم نے اخباری نمائندوں کو بتایا۔

جیکی کا گلابی لباس اپنے شوہر کے خون سے تر ہو چکا تھا، اور وہ اسی حالت میں ہسپتال پہنچیں۔ صدر کینیڈی زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ جیکی کینیڈی کو خون آلود لباس بدلنے کے لئے کہا گیا مگر جیکی نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا

 ” میں چاہتی ہوں سب دیکھیں کہ جیک کے ساتھ کیا کیا گیا ہے”

اور کچھ ہی گھنٹوں کے بعد جب لنڈن جانسن نے ایک طیارے میں امریکہ کا چھتیسواں صدر ہونے کا ہنگامی حلف اٹھایا تب بھی جیکولین اسی لباس اور اسی حلیے میں تھیں۔

“ان کے بال چہرے پہ گرے ہوئے تھے اور وہ خاموش تھی، بہت خاموش۔ ان کا لباس، دستانے اور بائیں ٹانگ پہ خون کے دھبے تھے، ان کے شوہر کےخون کے دھبے۔ یہ ایک اداس لمحہ تھا۔ انتہائی حسین خاتون، شاندار لباس اور شوہر کے خون سے لتھڑا ہوا لبادہ”

آنے والے برسوں میں جیکی کو ساری عمر افسوس رہا کہ انہوں نے اپنے چہرے سے لہو کے دھبے کیوں صاف کیے؟

جیکی نے شوہر کے پسندیدہ لباس میں ہی ان کی لاش کے ساتھ وائٹ ہاؤس واپسی کا سفر کیا۔ واشنگٹن میں گھر پہنچنے پہ انہوں نے جب لباس تبدیل کیا تو یہ لباس ان کی والدہ کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے اپنے ہاتھ سے اسے ایک ڈبے میں محفوظ کیا اور اس پہ ایک چٹ لکھ کے لگائی، 22 نومبر، 1963۔ لباس کے ساتھ پہنا جانے والا ہیٹ جیکی نے گاڑی میں ہی اتار پھینکا تھا اور وہ ہیٹ ایک گمشدہ داستان بن گیا۔

تاریخ کا یہ مشہور عالم گلابی لباس بعد میں امریکن تاریخ کا حصہ بنا اور قومی آرکائیوز میں محفوظ کیا گیا۔ تاہم یہ عوام کی نظر اور پہنچ سے دور رکھا گیا ہے اوریہ جیکی کی بیٹی کیرولین کینیڈی کا فیصلہ ہے۔ 2103 تک قومی آرکائیوز کا شعبہ اس فیصلے کا احترام کرنے کا پابند ہے۔

یہ لباس صرف اس لئے اہم نہیں کہ یہ کینیڈی اور جیکی کی رفاقت کے آخری لمحوں کا گواہ تھا، بلکہ اس لئے کہ یہ ایک عورت کے احساسات کی ترجمانی بنا۔ ایک عورت نے اپنے محبوب شوہر کو اپنے ہاتھوں میں دم دیتے دیکھا اوراس کا غصہ، دکھ، رنج، بےبسی، اور بےچارگی اس خون آلود گلابی لباس نے دنیا میں اجاگر کر دی۔ یہ لباس ایک احتجاج اور ہار نہ ماننے کا اعلان بنا اور پوری دنیا نے اس کو محسوس کیا۔

یونہی خیال آیا!

 ہمارے ہاں بھی ایک وزیر اعظم خاتون نے زندگی ہاری تھی۔ اسی طرح سر پہ گولی کھائی تھی۔ اسی طرح خون کے چھینٹے اڑے تھے اور اسی طرح گاڑی خون آلود ہوئی تھی۔ یقیناً کسی نے سر بھی گود میں رکھا ہوگا۔ کیا کسی نے بےنظیر بھٹو کا لباس اور چادر محفوظ کرنے کا سوچا؟ وہ بھی ہار نہ ماننے والی عورت تھی، کیا ہم اس کی طاقت اور مزاحمت کی نشانیاں محفوظ رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا ضرورت نہیں سمجھتے۔ ہمیں تو سڑکوں سے لہو کے نشان اور جرم کے شواہد دھونے کی عجلت درپیش ہوتی ہے۔

تاریخ تو کہانیوں سے زیادہ شواہد پہ یقین رکھا کرتی ہے!

خون سےبھیگے ہوئے کچھ لفظ

ٹوٹ کے بکھرتے ہوئے ہوئے کچھ حرف

وہ آخری دموں کی سرگوشیاں

وہیں فضا میں تیرتی ہیں

اور تمہارا حق اور سچ کی خوشبو سے بھرا لباس

خون آلود چادر

وہیں کہیں کسی کوڑے کے ڈھیر پہ

شاید منتظر ہے آج بھی

ان قدردان ہاتھوں کی

جو اسے تمہاری جدوجہد کا استعارہ بنا دیں

ہم شرمندہ ہیں تم سے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).