سلسلۂ خواب: قائد اعظم سے مولانا فضل الرحمٰن تک


اس منظر اور بیان سے مترشح ہے کہ قائداعظم کو حضورﷺ کے ساتھ بے حد محبت تھی ”۔ ایسے ہی اشاروں کی بنیاد پر حکیم الامت سمجھے جانے والے دیوبند مکتب ِ فکر کے سب سے بڑے عالم نے نہ صرف قیامِ پاکستان کی حمایت کی بلکہ اپنے رفقا (مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا شبیر احمد عثمانی) کو اس حوالے سے خصوصی طور پر حکم بھی دیا۔

سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس چوہدری فضل حق نے نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامے ”نظریہ“ میں لکھا ”علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کی وفات کے بعد بتایا کہ قائد مرحوم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ وہ لندن کی خود اختیار کردہ جلاوطنی کو سرور کائناتﷺ کے حکم پر ختم کر کے واپس آئے تھے جو انہیں سرور کائناتﷺ نے ایک خواب میں دیا تھا۔ خواب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قائداعظم نے بتایا کہ رسول اللہﷺ کا حکم نہایت واضح تھا۔ “ محمد علی واپس جاؤ اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کرو ”۔ (واضح رہے یہ گفتگو انگریزی میں ہوئی تھی) قائداعظم نے یہ خواب سنا کر تاکید کی تھی کہ اس واقعہ کا ذکر ان کی حیات میں کسی سے نہ کیا جائے“۔ (روزنامہ جنگ، 29 ستمبر 2011 ء)

دوسری جانب مولانا شبیر احمد عثمانی نے جب قائداعظم کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائداعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”قائداعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرمﷺ کی زیارت کی۔ حضورﷺ نے قائداعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا“ یہ میرا مجاہد ہے ”۔

قیامِ پاکستان کے حوالے سے یہ بات سب جانتے ہیں کہ ابتدا میں اکثریت علما نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر بعد ازاں۔ لوگ ملتے گئے، کارواں بنتا گیا۔ اسی حوالے سے پیر سید نصیر الدین گولڑوی نے ایک مقامی رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تحریک پاکستان کے وقت چند دوسرے علمائے کرام اور مشائخ کی طرح میرے دادا محترم بابو جی (حضرت محی الدین گیلانی المعروف بابو جی) کے خیال میں بھی قائداعظم کی شخصیت کے غیر شرعی پہلو کھٹکنے لگے۔

اسی دوران دادا حضور اجمیر تشر یف لے گئے۔ وہاں قیام کے دوران ایک مخلص نے آکر آپ سے عرض کی کہ ”حضرت! سرکار دو عالمﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے۔ آپﷺ کرسی پر تشریف فرما ہیں، سامنے میز پر ایک فائل پڑی ہوئی ہے چند لمحے بعد پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور آپﷺ وہ فائل اس شخص کو تھما کر فرماتے ہیں کہ یہ ’پاکستان کی فائل ہے‘ ۔

اس شخص نے تصویر دیکھ کر بابو جی سے عرض کی کہ حضرت یہ وہی شخص ہے جسے میں نے رات خواب میں سرکار دو عالمﷺ کی بارگاہ اقدس سے فائل لیتے دیکھا تھا۔ وہ محمد علی جناح تھے تو اس دن سے حضرت بابو جی مسلم لیگ کے حمایتی بن گئے، محض اس لئے کہ ان پر سرکار دو عالمﷺ کا ہاتھ تھا ”۔ (ماہنامہ ساندل سویر اسلام آباد اکتوبر 1997 ء)

خان آف قلات ’میر احمد یار خان بلوچ نے جب 1947 ء میں ریاستِ قلات کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو اس کے پیچھے بھی ایک خواب کا عمل دخل تھا۔ خان آف قلات کے پوتے پرنس عمر کا یہ بیان آن ریکارڈ ہے کہ قائداعظم جو ریاستِ قلات کے وکیل بھی تھے، کا خان آف قلات سے ایک قریبی تعلق تھا اور وہ قیامِ پاکستان کے قائداعظم کے نظریے سے متفق بھی تھے مگر اس کے باوجود کسی حد تک شش و پنج کا شکار تھے۔ اسی دوران خواب میں انہوں نے رسول اکرمﷺ کو دیکھا، جنہوں نے انہیں حکم دیا کہ وہ قلات اسٹیٹ کا پاکستان سے الحاق کریں، اسی پر انہوں نے قلات کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ پسِ نوشت کے طور پر عرض ہے کہ بعد میں یہی میر احمد یار خان تھے جو نظر بند بھی رہے، بغاوت کے مقدمے بھی بھگتتے رہے اور پھر گورنر بھی بنے۔

علامہ اقبال بھی ہمیں اسی راہ پر ملتے ہیں۔ 1950 ء میں شائع ہونے والی ”روزگارِ فقیر“ کی جلد دوم میں سید وحیدالدین بتاتے ہیں کہ ”1920 ء کے ابتدائی ایام میں علامہ اقبال کے نام ایک گمنام خط آیا جس میں تحریر تھا کہ حضورﷺ کے دربار میں تمہاری ایک خاص جگہ ہے جس کا تم کو علم نہیں۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھ لیا کرو تو تم کو بھی اس کا علم ہو جائے گا۔ خط میں وظیفہ لکھا تھا مگر علامہ اقبال نے یہ سوچ کر کہ راقم نے اپنا نام نہیں لکھا، اس کی طرف توجہ نہ دی اور خط ضائع ہو گیا۔

خط کے تین چار ماہ بعد کشمیر سے ایک پیرزادہ صاحب علامہ اقبال سے ملنے آئے۔ عمر تیس چالیس سال کے لگ بھگ تھی، بشرے سے شرافت اور چہرے مہرے سے ذہانت ٹپک رہی تھی۔ پیرزادہ صاحب نے علامہ اقبال کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا۔ آنسوؤں کی ایسی جھڑی لگی کہ تھمنے میں نہ آتی تھی۔ علامہ اقبال نے یہ سوچ کر کہ یہ شخص شاید مصیبت زدہ اور پریشان حال ہے اور میرے پاس کسی ضرورت سے آیا ہے، شفقت آمیز لہجے میں استفسار کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ میرے بزرگوں نے اللہ تعالیٰ کی ملازمت کی اور میں ان کی پنشن کھا رہا ہوں۔ میرے اس بے اختیار رونے کی وجہ خوشی ہے نہ کہ کوئی غم۔

ڈاکٹر اقبال کے مزید استفسار پر اس نے کہا کہ میں سرینگر کے قریب ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ ایک دن عالم کشف میں مَیں نے حضور رسالت مآبﷺ کا دربار دیکھا۔ جب نماز کے لئے صف کھڑی ہوئی تو آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ اقبال آیا یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ نہیں آیا۔ اس پر ایک بزرگ کو بلانے کے لیے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان بزرگ کے ساتھ نمازیوں کی صف میں داخل ہو کر حضور نبی کریمﷺ کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ پیرزادہ نے علامہ اقبال سے کہا میں نے آج سے پہلے نہ تو آپ کی شکل دیکھی تھی اور نہ ہی آپ کا نام اور پتا جانتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3