سلسلۂ خواب: قائد اعظم سے مولانا فضل الرحمٰن تک


کشمیر میں ایک بزرگ مولانا نجم الدین صاحب ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے یہ ماجرا بیان کیا تو انہوں نے آپ کا نام لے کر آپ کی بہت تعریف کی۔ اگرچہ انہوں نے بھی آپ کو کبھی نہ دیکھا تھا مگر وہ آپ کی تحریروں کے ذریعے آپ کو جانتے تھے۔ اس کے بعد ملنے کا شوق پیدا ہوا اور آپ سے ملاقات کے واسطے کشمیر سے لاہور تک کا سفر کیا۔ آپ کی صورت دیکھتے ہی میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے کشف کی عالم بیداری میں تصدیق ہو گئی کیونکہ جو شکل میں نے عالم کشف میں دیکھی تھی آپ کی شکل و شباہت عین اس کے مطابق ہے۔ سرِمو فرق نہیں۔ کشمیری پیرزادہ صاحب اس ملاقات کے بعد چلے گئے۔ لیکن ڈاکٹر علامہ اقبال کو وہ گمنام خط بہت یاد آیا۔ مضطرب ہو گئے۔ اس میں مرقوم وظیفہ یاد نہ رہا تھا۔

پوری واردات کی تفصیل اپنے والد بزرگوار کو لکھی اور اس امر کا اظہار کیا کہ مجھے شدید ندامت ہو رہی ہے اور روح شدید کرب میں مبتلا ہے کہ میں نے وہ خط کیوں ضائع کر دیا۔ آپ ہی اس کی تلافی کی کوئی صورت بتائیں کیونکہ پیرزادہ صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ میں نے آپ کے بارے میں جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ کے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اس لئے آپ یا تو کوئی علاج اور تدبیر بتائیں یا خاص طور پر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس گرہ کو کھول دے کیونکہ اگر پیرزادہ صاحب کا کشف درست ہے تو میرے لئے بے خبری اور لاعلمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے۔

یہ واقعہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ”زندہ رود“ میں بھی رقم کیا ہے حالانکہ مرحوم جاوید اقبال خود قدرے سیکولرمزاج کے حامل تھے جبکہ اقبال کا سیکولر نواسہ یوسف صلاح الدین اقبال کے ذاتی ملازم علی بخش سے زبانی سنی معین الدینؒ چشتی اور علیؒ ہجویری (داتا گنج بخش) کی اقبال سے ملاقات کا قصہ آج بھی سناتا ہے۔

عرض یہی ہے کہ مطلقًا خواب کا انکار کر دینا کہ سرے سے خواب یا رویائے صالحہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا یہ گمان کر لینا کہ خواب محض جھوٹ اور من گھڑت ہوتے ہیں، میرے نزدیک جہالت اور لاعلمی ہے۔ سورۃ یوسف کا تو موضوع ہی خواب ہے۔ قرآن مجید، فرقان حمید میں تین انبیاء کرام اور تین اشخاص کے خوابوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ تمام خواب بالکل درست طور اپنی تعبیر سے ہمکنار ہوئے۔ انبیاء کرام میں خاتم النبیینﷺ کا خواب (سورۃ فتح، آیت 27 )، حضرت ابراہیمؑ کا خواب (سورۃ الصافات، آیت 105 ) اور حضرت یوسفؑ کا خواب (سورۃ یوسف، آیت 4 ) ذکر ہوا ہے جبکہ 3 اشخاص میں دو قیدیوں کے خواب (سورۃ یوسف آیت، 36 ) اور بادشاہ کے خواب (سورۃ یوسف، آیت 43 ) کا ذکر ہے۔

سچے خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہا گیا (بخاری، مسلم) اور یہ کہ اچھا اور خوش کن خواب رحمٰن اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ تاہم خوابوں کے حوالے سے یہ اصول واضح ہے کہ ”خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، سچا و صالح خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم، آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے“۔ (مستدرک حاکم)

یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ شریعت کے اصولوں مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں جنہیں خوابوں کے فسانوں سے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی شرعی مسئلہ ہے کہ خواب خواہ کس قدر بھی سچا ہی کیوں نہ ہو، شریعت کے کسی ایک اصول کو بھی ڈھا نہیں سکتا۔ البتہ خوابوں کے ماننے کے حوالے سے ہمارے ہاں ”میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو“ کا اصول رائج ہے۔ قائداعظم، علامہ اقبال، شبیر احمد عثمانی اور پیر آف گولڑہ شریف کے خواب اور اشارے تو شاید ہم مان لیں لیکن جب بات ڈاکٹر طاہر القادری، مولانا طارق جمیل، مولانا خادم حسین رضوی اور مولانا فضل الرحمٰن تک آتی ہے تو نجانے کیوں ہمیں ان میں ریاکاری، سیاست اور مذہبی کارڈ کی بُو آنے لگتی ہے۔

اس حوالے سے اصول واضح ہونا چاہیے۔ سب کے خوابوں کو ایک ہی درجے میں رکھا جانا چاہیے یعنی یا تو سب کے خواب تسلیم کیے جائیں یا سب کا انکار کیا جائے وگرنہ تیسرا رستہ اپنایا جائے یعنی جو خواب دیکھے، وہ اسے اپنے تک رکھے یا اپنے قریبی افراد تک محدود رکھے، یوں دھرنوں کے اسٹیجوں، منبر و محراب اور عوامی مقامات پر نہ بیان کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3