ہمیں نثار ترابیؔ یہیں پہ رہنا ہے


گزشتہ دنوں مجھے راولپنڈی آرٹس کونسل میں ایک شعری مجموعے کی تعارفی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ توقع کے عین مطابق شرکا کی تعداد آسانی سے گنی جا سکتی تھی۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے نئی نسل کے نمائندہ، ممتاز شاعر ڈاکٹر نثار ترابی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس قدر تیزی سے ہمارے ملک میں ادبی محفلوں اور مشاعروں میں سامعین کی تعداد کم ہو رہی ہے، اتنی ہی سرعت سے شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اگر معاشرے میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو فنونِ لطیفہ کو فروغ دیں۔

نثار ترابی نے جس کرب کا اظہار کیا وہ میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ ذرا ساٹھ اور ستر کی دہائی کا تصور کیجیے۔ پاکستانی سینما اپنے عروج پر تھا۔ وحید مراد، ندیم اور محمد علی کی فلموں نے دھوم مچا رکھی تھی۔ مہدی حسن، نور جہاں، ناہید اختر، مہناز، اے نئیرکے گانے ہر طرف گونجتے تھے۔ خواجہ خورشید انور، نثار بزمی، سہیل رعنا سمیت درجنوں موسیقار بہترین دھنیں تخلیق کر رہے تھے۔ پاکستانی ڈرامے نے بھی ابتدا ہی سے اپنا رنگ جما لیا تھا۔ مصوری، رقص، تھیٹر غرض آرٹ کا ہر شعبہ بھرپور تھا۔

اس کے بعد ایسی ’ضیا‘ پھیلی جس کی ’چکا چوند‘ نے آرٹ اور فن کے چاند کو گرہن لگا دیا۔ ایسی شدت پسندی کا آغاز ہوا جس میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج ہم ایک ایسے سماج میں زندہ ہیں جہاں گھٹن اور حبس کا عالم ہے۔ سانس لینا بھی محال ہے۔ فنونِ لطیفہ مرنے کے قریب ہیں۔ مگر شدت پسندی اور عدم برداشت اپنے عروج پر ہے۔ خواہ جنسی ہراسانی کا معاملہ ہو یا غیرت کے نام پر قتل کا۔ بدزبانی اور بد کلامی گلی محلوں سے نکل کر جلسوں اور ایوانوں تک آ پہنچی ہے۔ ٹاک شوز میں اپنے مخالف کا نقطہ نظر سن کر شرکا گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔

جہاں فنونِ لطیفہ مر جائیں وہاں انسانیت بھی دم توڑ دیتی ہے۔ نفرتیں بڑھتی ہیں اور تعصب کو ہوا ملتی ہے۔ ایسے سماج میں کوئی صلاح الدین دورانِ تفتیش پولیس کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو کوئی ریحان چوری کے شبہ میں عام لوگوں کے بیہمانہ تشدد کی تاب نہ لا کر دم توڑ دیتا ہے۔ ایسے معاشرے میں ہی کسی کمسن زینب کی روندی ہوئی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملتی ہے۔

جب تک ہم فنونِ لطیفہ کو فروغ نہیں دیں گے ہمارے اندر صبر، برداشت، تحمل اور رواداری جیسے جذبات پروان نہیں چڑھیں گے۔ فنونِ لطیفہ نہ صرف لطف و انبساط کا ذریعہ ہے بلکہ مثبت سوچ، رواداری اور کردار سازی کا بھی ایک اہم اور موثر ذریعہ ہے۔ فنونِ لطیفہ انسان کی حسِ جمال اور ذوقِ لطیف کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ خوبصورتی کے احساس سے عاری انسان تو حیوان کے مترادف ہے۔

بات نثار ترابی کے خیال سے شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں پھر بھی میں عرض کرتا چلوں کہ شعر و سخن ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن میں سے اردو شاعری کی کتاب ”بارات گلابوں کی“ اور ”ہر صدا مسافر ہے“ جب کہ پنجابی شاعری کی کتاب ”اپنی چھاں دا سیک“ میری فیورٹ ہیں۔

وہ اکثر رواداری، امن اور محبت کے فروغ کی بات کرتے ہیں۔ کبھی کبھی شدت پسندی سے گھبرا کر یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ’جہاں پہ ہونا تھا ہم کو وہاں نہیں ہیں ہم‘

نثار ترابی اس کے باوجود یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں یہیں رہنا ہے۔ اس مٹی کی خوشبو سے دور بھلا ہم کہاں جا سکتے ہیں۔ مگر اب ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کو، اپنی نئی نسل کو کیا دے کر جائیں گے؟ ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل کیا ہے؟ یہ شدت پسندی اور عدم برداشت اور کیا کچھ نگل لے گی؟ اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے ہمیں غور کرنا ہو گا۔ شاعری، ادب، فنونِ لطیفہ کو فروغ دینے کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانی ہو گی۔

آخر میں نثارترابی کی ایک خوبصورت غزل پیشِ خدمت ہے۔

یوں دیکھنے کو جہاں میں کہاں نہیں ہیں ہم

جہاں پہ ہونا تھا ہم کو وہاں نہیں ہیں ہم

کوئی تو ردِ بلا کا بھی اسم ہاتھ آئے

کہ ایک عمر سے منزل نشاں نہیں ہیں ہم

نمو کی کوئی بشارت ملے خدایا ہمیں

سرابِ دشت ہیں آبِ رواں نہیں ہیں ہم

ہمارے عہد سے روٹھا ہوا ہے موسمِ گل

خزاں زدہ ہیں پہ ہرگز خزاں نہیں ہیں ہم

ہمارے گھر کے در و بام روز روتے ہیں

شکستہ چھت ہیں، پختہ مکاں نہیں ہیں ہم

ہمیں نثار ترابیؔ یہیں پہ رہنا ہے

زمین زادے ہیں جی! آسماں نہیں ہیں ہم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).