کیا اب طاقتور ہونا بھی طعنہ ہے؟


کہنے سننے میں لفظ طاقتور بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے اس لفظ کا ادراک ہو جانے کے بعد سب ایسے لگتا ہے۔ کہ اگر آپ بھی طاقتور ہیں تو باقی دنیا آپ کی مرید ہے۔ یا یوں کہے آپ کے سامنے بے بس ہے مگر یہاں مملکت خدادا میں اس لفظ طاقتور کو بھی طعنے کے طور سمجھا لکھا اور پڑھاجانے لگا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ایک طاقتور بیمار قیدی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملک سے باہر بھجنے کا فیصلہ دیا گیا۔

اس عدالتی فیصلے کے بعد اہل انصاف پر سوالات اٹھنے لگے تو وہیں مملکت خداداد کے وزیر اعظم تک بھی اس کا دکھ برابر پہنچا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی اک تقریر کے دوراں کہا کہ انصاف کا میعار غریب و امیر کے لیے برابر رکھا جاوے۔ شاید وہ یورپ والی برابری چاہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ ملک کے دیگر امور میں یورپ جیسا مثالی نظام لانا چاہتے تھے۔ مگر اپنی ہی حکومت کا ایک ڈیڑھ سال مکمل ہونے تلک یہ جان چکے ہیں کہ یہاں جو نظام چل رہا ہے۔

یہ بھی پوری طرح چل پڑے تو عین ممکن ہے کچھ انصاف ہو سکے۔ تبدیلی سرکار کے حامیوں سمیت حکومتی تجزیہ کاروں کا ابھی تک یہی خیال تھا کہ موجودہ حکومت ملکی تاریخ کی مثالی حکومت ہے۔ جس کے فوج عدلیہ اور حساس اداروں سے تعلقات برابر چل رہے ہیں۔ اور یہ اپنی نوعیت کی بہترین حکومت ہے جو اداروں کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہے۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ ادھر میاں نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کا حکم نامہ جاری ہوا۔ حکومت اور اداروں کی ہم آہنگی مانند پڑنا شروع ہو گئی۔

وزیر اعظم عمران خان کی تقریر پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے فوری طور پر وضاحت طلب بیان سامنے آیا کہ اب کی بار اک بیمار طاقتور ملزم کو بیرون ملک بھیجنے والا ایک وزیر اعظم ہے۔ یہ بھی صاف کہا گیا کہ ہمیں طاقتور ہونے کا طعنہ نہ دیں۔ اب یہ سب ہونے کی دیر تھی کہ یورپ کی طرز کا عدالتی نظام لانے کے خواہشمند عمران خان نے سر پکڑے اپنی تقریر پر دوبارہ غور کرنا شروع کیا ہو گا۔ اگلے روز الیکشن کمیشن نے بھی آنکھیں پھیر لیں کہا کہ پارٹی فنڈنگ کیس روزانہ کی بنیاد پر سنا جاوے گا۔

ایسے میں حکومت اور اداروں کے درمیاں ایک دھندلی سہی مگر لکیر پڑتی معلوم ہو رہی ہے۔ یہ کہا جائے کہ ڈیڑھ سال گزرنے ساتھ ہی تبدیلی حکومت تا حال الجھاؤ کا شکا ر ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اب کی بار کیونکہ بڑے مخصوص حالات بنے ہیں پہلے پہل تو ڈیل نہیں ہو گی۔ باہر نہیں جانے دوں گا۔ جیل میں گھر کا کھانا نہیں لایا جائے۔ فریج اے سی اور ٹی وی نکال دو نگا۔ جیسے استعارے زیر بحث رہے۔ خان صاحب اس وقت انسانی ہمدردی کے کلمات کو بھول کر میاں نواز شریف کی قید پر مرکوز تھے۔

شاید نہیں جانتے تھے کہ کچھ روز بعد یہ سبھی موٹے لفظ پلٹ کر پیچھا کریں گے۔ تبدیلی کے دیوانے بدگمان ہوں گے اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جائے گا۔ بحر حال یہ سب ہوا اور عوام میں ایک رویہ سامنے آتا نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ رویہ بڑا ہی واہیات ہے۔ خان سے بدگمان لوگ جو نواز شریف کو ملک لوٹنے والا سمجھ رہے تھے وہ اب اس بات پر نالاں ہیں کہ باہر کیوں جانے دیا۔ اس بات کا حکومتی اراکین کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ جناب انسانی ہمدردی۔

خیر انسانی ہمدردی کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسان کی کمزوری کو نقطہ اعتراض نہ بنایا جائے۔ پچھلے دنوں وزیر ریلوے جناب شیخ رشید احمد کو دل کا عارضہ لاحق ہوا اور حال ہی ممیں پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما نعیم الحق بھی کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہیں، مگر اپوزیشن کی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی جانب سے خیر سگالی کے جذبات نہیں دیکھے گئے جو اس ملک کے سیاست دانوں کی اخلاقیات پر بڑا سوال ہے۔

خیر مملکت خداداد میں اخلاقی بنیاد پر سیاست اور امور سلطانی انجام دینا کم ہی وتیرہ رہا ہے۔ کنٹینر کا دور ہمیں ہمیں بھی معلوم ہے جب خان صاحب محمود اچکزئی کی نقل اتارا کرتے تھے اور ہم بھی محظوظ ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ نقل اتارنے والی روش اب بھی باقی ہے۔ ہزارہ موٹر وے کے افتتاح کے موقع پر مملکت پاکستان کے وزیر اعظم نے بڑے دلچسپ اندا از میں بلاول بھٹو کی نقل اتاری جو خود ان کے منصب پر حرف لانے کے مترادف ہے۔ کہیں نا کہیں یہ ضرور معلوم پڑ رہا ہے کہ خان صاحب اب بھی اسٹیج پر آ کر محسوس کرتے ہیں کہ وہ کنٹینر پر کھڑے ہیں اور ڈی جے بابو کے میوززک کے ساتھ متوالوں سے مخاطب ہیں۔ خان صاحب ایسا نہیں ہے اب آپ کے نام کے ساتھ لفظ وزیر اعظم بھی موجود ہے۔

تو ہم یہ کہ رہے تھے کہ مملکت خداداد میں لفطٖ طاقتور بھی منفی معنوں میں سمجھا جانے لگا ہے۔ در اصل روایت بھی کچھ یو ں ہی ہے۔ اس واسطے ایسا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ البتہ وفاقی حکومت جس کے ا اداروں کے ساتھ مثالی ہم آہنگی کی مثالیں دی گئیں تھیں وہ بات اب رہی نہیں ہے۔ خان صاحب شاید کہ سمجھنا شروع کر دیں کہ یہاں آیا تو نہیں ہوں لایا گیا ہوں۔ اور جن کی منشاء سے یہ کارہائے جتن انجام پایا ہے کچھ ان کی بھی عرضیاں ہوا کرتی ہ ہیں۔

یہ عرضیوں سے زیادہ احکامات ہوتے ہیں۔ جو وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالنے والے آدمی کو حساب کتاب ٹھیک ٹھیک برابر ذہن نشین کراتے رہتے ہیں۔ ان احکامات کی روشنی میں خان بہاد رکو حسب ضرورت یہ بھی یاد دلایا جا رہا ہے کہ خان صاحب ہمیں طاقتور ہونے کا طعنہ مت دو۔ خاطر جمع رکھو کہ طاقتور ہونا کیا ہے۔ اور انصاف کے تقاضے جس عوام کے لیے آپ برابر پورے کرنے کا تقاضا کر رہے وہ عوام کچھ اسی طرح کے انصاف کے عادی ہو چکے ہیں ”اس لیے طعنے مت دو۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).