ہم تو دودھ کے دھلے ہیں


آدمی کو خدا نہ دکھلائے

آدمی کا کبھی خدا ہونا۔ (احمد فراز)

دیکھو فلاں تو ایسا نہیں ہے وہ تو بہت اچھا بچہ ہے فلاں کو دیکھو کتنے اچھے نمبروں سے پاس ہوتا ہے۔ ہم تو ایسے نہیں تھے بہت ادب آداب والے بچے تھے۔ آج کل تو کوئی لحاظ مروت ہی نہیں ہے۔ ہمارا دور تو بہت اچھا تھاتم لوگ پتہ نہیں کیسے اپنی زندگی گزاروگے۔ اُس کے بچے کو دیکھو کتنے اخلاق والا ہے۔ دل خوش ہو تا ہے اُس سے ہماری ہی اولاد نکمی اور بے ادب ہے۔ بچپن سے اکثر ہم ایسے جملے سنتے آرہے ہیں۔ اور پھر لڑکپن اور جوانی میں بھی کچھ اسی قسم کے جملے ہمارے ذہن اور دل میں مایوسی، احساس کمتری اور بد ظنی کو جنم دیتے ہیں۔

گھر میں بہن بھائی سے موازنہ، اگر جوائنٹ فیملی ہو تو کزنز سے موازنہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ پہلا بگاڑ ہی انسان کی شخصیت کا یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ پھر جب وہ بچہ جب اسکول کا دور شروع کرتا ہے تو پھر یہاں سے ایک نئی ریس کا آغاز ہو جاتا ہے۔ پیدا ہونے کے کچھ عرصہ بعد سے ہی بچہ ایک ان دیکھی دوڑ کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔ جس کا ادراک خود اسے بھی کئی سال گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ ایک ایسی دوڑ جس میں ناچاہتے ہوئے بھی انسان کو بھاگنا پڑتا ہے، شامل ہونا پڑتا ہے کیونکہ زمانے کا چلن یہی ہے۔ زمانہ خواہ کوئی سا بھی ہو ازل سے ہی انسان مقابلے اور موازنے کی ریس میں شامل رہا ہے۔

جب اسکول جا کر بچہ پر شعور و آگہی کے نئے در وا ہوتے ہیں جب بچہ خود سے سوچنے کا عمل شروع کرتا ہے یا شاید اس سے بھی پہلے سے اس کی شخصیت مجروح ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اسکول میں تو پھر بھی بچہ کے مقابل اس کے ہم عمر ہوتے ہیں یا پھر وہ دوسرے بچے جن کے ساتھ اس کی ذہنی ہم آہنگی ہے لیکن گھر میں اور دیگر رشتہ داروں میں بچوں کے مقابلے میں ان کے بڑے یا چھوٹے بہن بھائی یا پھر خود ماں باپ یا پھر گھر کے بڑے ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت وہ بچہ اپنے کردار کے حوالے سے، اپنے عادات و اطوار کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بچے کے اندر ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔

بچوں میں بھی انا ہوتی ہے اور حساسیت تو بڑوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر بچوں کی اصلاح کا انداز شفقت و محبت سے پر نہ ہو تو بچے اصلاحی بات کو بھی ڈانٹ سمجھتے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور شرارتوں کو بہت بڑا گناہ اور ناقابل معافی تصور کرکے یا تو بڑوں سے بدظن ہونا شروع ہوجاتا ہے یا پھر اندر ہی اندر احساس کمتری کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بڑوں کے رویئے کس طرح بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں بڑوں کو اس بات کا کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔

لڑکپن سے لے کر جوانی تک انسان اپنا موازنہ ہر کسی کے ساتھ کرنے لگتا ہے۔ پھر انسان کی سوچیں عموماً شدت پسندی کی طرف جاتی ہیں۔ یا تو وہ بالکل ڈرپوک اور اعتماد سے عاری انسان بن جاتا ہے جو اکثر اپنی ذات کی نفی کرتا ہے، اپنے ہر فعل و عمل کے لئے چاہے وہ کیسا بھی ہو شرمندہ رہتا ہے۔ یا پھر وہ خودسر، غرور وتکبر کا شکار ایک ہٹ دھرم انسان جو اپنے علاوہ کسی کا نہیں سوچتا۔ جس کے لئے ہر خواہش کسی دوسرے سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ وہ ہر جگہ صرف اور صرف اپنی ذات کو موضوع گفتگو بنانے اور ہر محفل میں ممتاز نظر آنے میں ہی انا کی تسکین محسوس کرتا ہے۔

جوان ہونے کے بعد جب انسان عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو یہاں سے وہ دور شروع ہوتا ہے کہ ”جو کچھ انسان کو زمانے سے ملتا ہے وہ وہی کچھ واپس لوٹاتا ہے“۔ ویسے تو لڑکپن اور بچپن میں بھی چاہے منفی اثرات ہوں یا مثبت انسان کے اطوار سے بخوبی جھلکتا ہے۔ لیکن عملی زندگی صحیح معنوں میں اس کی تربیت، سوچ اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔

عملی زندگی خواہ شادی شدہ والی ہو یا معاشی تگ و دو والی، یہاں سے صبر و برداشت کا نیا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ آفس ہو یا آپ کا سسرال آپ کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنانا سب کے اوالین فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ تب انسان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ شاید ماں باپ اور اساتذہ تو پھر بھی آپ کی بھلائی کے لئے تنقید کرتے تھے مگر یہاں تو سامنے والا صرف اور صرف اپنی انا کی تسکین اور حاسدانہ خیالات کو ظاہر کر رہا ہے۔ ہم تو اس طرح نہیں رہتے تھے سسرال میں، ہم تو ہر کام سلیقہ سے کرنے کے عادی ہیں پتا نہیں تم کیسی ہو، ہمارا باس تو ہم سے ہر وقت خوش رہتا تھا، ہم تو ہر کام کو نہایت عقل مندی سے کرتے ہیں، تم پتا نہیں کیوں آگئے تمہارا کیا کام تھا یہاں وغیرہ وغیرہ۔

غرض اس ہی طرح کی لایعنی اور منفی باتیں اس کی سماعت کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ پھر ان سب تجربات کی بھٹی میں جل کر انسان یا تو کندن بن جاتا ہے یا پھر کوئلہ۔ اگر وہ اعلیٰ ظرف کا مالک ہو تو کندن بن کے یہ سوچتا ہے کہ جو منفی طرز عمل میرے بڑوں نے اپنایا مجھے اس کے برعکس اپنے ماتحت اور چھوٹوں پر شفقت کا سایہ کرنا چاہیے اور ایسے ہی لوگ گھٹن زدہ ماحول میں آکسیجن کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ اپنی مثبت سوچ سے ایک بہترین لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔

لیکن جو کوئلہ بنتا ہے وہ اسی طرح کا طرز عمل تمام عمر اختیار کیے رکھتا ہے۔ پھر وہ ویسا ہی ماں /باپ، باس/ساس اور ویسا ہی تنگ نظر انسان رہتا ہے جو دوسروں کی زندگی کو دشوار اور تنگ کرکے خوش ہوتا ہے۔ ایسا شخص ایک نفسیاتی مریض ہوتا ہے جس کو اپنے مرض کا علم خود بھی نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ معاشرہ پستی کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔

عموماً زمانے کا مزاج اب شدت پسندی اور انتہا پسندی والا ہوگیا ہے۔ خواہ رشتے ہوں، طرز زندگی ہو، کھانا پینا یا رہائش، زندگی کا ہر میدان مثلاً علم و قابلیت، سفر، عیش و آرام، یہاں تک کہ پیشہ وارانہ زندگی میں ہماری سوچ اور رویہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔ یہ شدت پسند عناصر ہر لحاظ سے تباہ کاری کا باعث ہیں۔ مقابلے اور موازنے میں ہم اس حد تک بڑھ چکے ہیں کے ایک جیتے جاگتے انسان سے احساسات سے عاری ایک روبوٹ بن گئے ہیں جس کی زندگی کا مقصد صرف دوسروں پر سبقت لے جانا اور ہر مقام پر بس خود کو بلند اور اونچا رکھنا ہے۔ یا پھر وہ مایوسی کے اندھیروں میں بھٹک کر ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر کبھی کبھی انتہائی قدم لینے سے گریز نہیں کرتے۔

یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے اندر وسعت قلبی اور برداشت پیدا نہیں ہوگا۔ جب تک ہم دوسروں کی منفی باتوں کو نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑ جائنگے۔ اپنے ہر اچھے عمل کو لوگوں کی نظر میں سرخرو ہونے کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنی آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھیں گے۔ نا خود لوگوں کے خدا بنیں گے اور نہ ہی کسی کو خدا بننے دیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین رکھیں گے کہ اپنے حسن اخلاق کے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی ہماری اچھائی کی جزا دے سکتا ہے اور نہ کوئی بدی کی سزا دے سکتا ہے۔

ہم جتنا بھی چاہیں یا جتنا بھی اس بات پر لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ دوسروں کے رویہ اور دوسروں کی بات کو دل پر نہ لیں، اپنی شخصیت پر ان کے رویوں کو اثر انداز نہ ہونے دیں لیکن انسان پر اپنے ماحول کا اور لوگوں کی باتوں کا لاشعوری طور پر اثر ہوتا ہے۔ وہ نامحسوس طریقے سے ان باتوں سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی شخصیت میں معاشرے کے رویوں کا عکس جھلکتا ہے۔ لیکن آخر میں بس اتنا ہی :

”انسان کو سورج مکھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ زمانے کا رخ دیکھ کر کھلے بلکہ انسان کو کنول کی طرح ہونا چاہیے جو کیچڑ اور دلدل میں بھی اپنی پوری تازگی کے ساتھ کھلتا ہے اور ارد گرد کی پرواہ کیے بغیر اپنی شگفتگی برقرار رکھتا ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).