افسانہ بدروح


یہ تم سے نفرت کی انتہا ہی تو ہے جو مجھے ہر وہ لڑکی جو خود سے بے نیاز آپنے خیالوں کی دنیا سجائے، ہتھیلی میں اپنا چہرہ تھامے، فضا میں موجود بادلوں سے مختلف تصویریں بناتیں رہتی ہے میں اس معصوم چہرے کے اندر چھپے بچپنے کو کھوجنے کے بجائے اس میں چھپی حرص اور لالچ کی تلاش میں لگ جاتا ہوں۔

ہر وہ لڑکی جو شرم و حیا کا زیور اپنی آنکھوں میں سجائے اپنے دوپٹے سے اٹکھیلیاں کرتی پھرتی ہے، جو اس کے سر سے سرک کے بار بار اس کے کندھوں کو جھول جاتا ہے میں ان تمام معصوم لڑکیوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی تمہیں کھوجنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔

عورت میں موجود ہر وہ ادا جس سے میں اپنی آئیڈیل کا چہرہ بنا کے رنگ بھرتا ہوں تم تو ہر اس خوبی سے ماورا تھی پھر وہ کیا وجہ بنی جو تمہارا مجھے یوں چھوڑ جانے نے میری آنکھوں سے نیندوں کو چھین لیا۔ تمہارا رنگوں اور خوشبووُں سے معطر چہرہ جو حقیقت سے زیادہ بناوٹ پر مبنی تھا کیوں مجھے سکون سے نہ جینے دیتا ہے نہ مر نے۔

کاش وہ دن ہماری زندگی میں آیا ہی نہ ہوتا جب میں تمہارے گھر پہنچا۔ تم ہمیشہ کی طرح سجی سنوری بیٹھی تھی۔ تمہاری آنکھیں جو مجھے ہمیشہ سحر میں مبتلا کردیتی تھی اس میں کھینچے گئے سرمے کے ڈورے تمہاری بڑی آنکھوں کو اور گھنی پلکوں کو مزید نمایاں کر دیتے تھے میری نگاہوں کے سامنے ویسے ہی موجود تھیں۔

مگر ان نگاہوں میں میں چھلکتا وہ پیار جس کے لیے میں اپنے گھر والوں سے جھگڑ کے صرف تمہاری خاطر سب کچھ چھوڑ آیا تھا آج موجود توتھا، پر یہ نگاہیں آج میرا نہیں کسی اور کا طواف کررہی تھیں۔ تمہاری مسکراہٹ تمہارے چہرے پر یوں ہی سجی ہوئی تھی جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے میں مسجدوں میں تم سے ملاقات کے لیے ڈھیروں دعائیں کرتا رہتا تھا کہ کسی طرح انہیں اپنا بنا کر اس مسکراہٹ کو تاحیات اپنے قابو میں کر سکوں۔ تم پر کسی دکھ اور مصیبت کی آنچ تک نہ آنے دو ں۔

مگر اس مسکراہٹ کا اہتمام تو آج کسی اور کے لیے کیا گیا تھا۔ تمہارا لا ابالی انداز جو مجھے تمہاری سب سے معصوم خوبی لگتا تھا نہ جانے کیوں آج زہر لگ رہا تھا۔

میں کتنی دیر دروازے کی اوٹ میں کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا سامنے بیٹھا وہ شخص مجھے ہر لحاظ سے خود سے کمتر لگ رہا تھا، مگر باہر کھڑی اس کی بڑی گاڑی میرے بہت سے سوالوں کا جواب دے چکی تھی۔ میں چپ چاپ منظر سے ہٹ کر تھکے قدموں کے ساتھ گھر کی طرف مڑ گیا، جہاں کچھ دیر پہلے  کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ میری ماں مجھے تمہاری بدکرداری کے قصوں کے بارے میں والہانہ انداز میں بتا رہی تھی مگر میرے دل و دماغ میں تو تمہاری محبت کا سایہ ہو چکا تھا۔ میں کسی بھی بات کو ماننے سے انکاری تھا۔

میں تمہارے مکروفریب کے ہاتھوں شکست کھا چکا تھا۔ اس کے بعد میں نے تم سے متعلقہ ہر جذبے سے دستبرداری کا عہد کرلیا۔ تمہارے ساتھ گزارے گئے وہ تمام خوبصورت لمحات جو میں ڈائری میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک ان یادوں کی گرمائش لطف اندوز ہوتا تھا میں نے انگاروں کی نزر کر دی۔

مگر آج بھی کسی لڑکی کو دیکھ کر میرا دماغ نہ چاہتے ہوئے بھی تمہارے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو تروتازہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کسی کی سرمگیں آنکھیں دیکھ کر میں پھر سے بدحواس ہو جاتا ہوں۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے یقین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ تم کوئی بدروح تھی جس کا سایہ ہمیشہ میرے وجود پہ قائم رہے گا اور ہر حسین لڑکی کو دیکھ کر مجھ میں موجود پارسا مرد کو ابھارنے کے بجائے، جو عورت ذات کی عزت کرنے کو اپنا فرض سمجھتا تھا، اس جنگلی درندے کو جگائے گا جس کے لئے عورت کا جسم ایک جائز رشتے کا طلبگار نہیں۔ وہ محض گوشت کے اس ٹکڑے کی مانند ہے جس کے ساتھ صرف وقت گزاری میں ہی لذت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).