تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے گلوکار اور موسیقار ایس بی جون


SB John
Sunny Benjamin John

” جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی سرے کا پتھر ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔“

خدائے بزرگ و برتر کی عنایات کا جب نزول ہو تو وہ راتوں رات اپنے بندے کو شہرت کے آسمان کا تارہ بنا دیتا ہے۔ فلمی دنیا کے کئی ایک فنکاروں کے ساتھ ایسا ہوا لیکن ان میں سے بعض فنکار فلموں کے حوالے سے غیر فعال ہو گئے۔ ایسی ہی عنایات ایس۔ بی۔ جَون پر بھی ہوئیں جب فلم ’سویرا‘ کا گیت مقبول زدِعام ہو کر اُن کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔ آج یہ گیت کلاسیِک کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ 1959 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’سویرا‘ کاماسٹر منظور حسین شاہ عالمی والے کی موسیقی میں فیاضؔ ہاشمی صاحب کا لکھا ہوا زوال گیت یہ ہے :

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

آج 60 سال بعد بھی جَون بھائی کی آواز میں یہ گیت روزِ اول کی طرح مقبول ہے۔ آج بھی نوجوان یہ گیت شوق سے سُنتے ہیں۔ اِس گیت کو بعد کے آنے والے فنکاروں نے بھی ٹیلی وژن چینلوں پر پیش کیا۔ لیکن جَون بھائی کا گایا ہوا اصل گیت آج بھی آب وتاب کے ساتھ روشن اور ویسا ہی تازہ ہے۔ انٹر نیٹ پر جہاں کوئی ’ری مکس‘ ہوتا ہے اُس کے ساتھ ہی اصل گیت بھی موجود ہوتا ہے۔ مذکورہ گیت کے ری مِکس کے ساتھ اصل گیت بھی انٹر نیٹ پر موجود ہے اور سننے والا ”فرق“ صاف محسوس کر لیتا ہے۔

پاکستان ٹیلی وژن کا میں ہمیشہ احسان مند رہوں گا کہ اُس کی بدولت خاکسار کو اِس عظیم فنکار کے پاس بیٹھنے کا کئی مرتبہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ میرا جَون بھائی سے 1980 کی دہائی سے تعلق ہے۔ اِن کے بیٹے روبن جَون کے ساتھ میں نے پاکستان ٹیلی وژن کے کئی موسیقی کے پروگرام کیے۔ جون بھائی سے بھی اکثر ملاقات رہتی تھی مگر کبھی تفصیلی گفتگو کا موقع نہ مل سکا۔ چند روز پہلے اُن سے اُن کے کام، شخصیت اور خصوصاً اُن کے پہچان گیت کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ اور یہ بھی کہ اُس کے بعد مزید فلموں میں گانے کیوں نہیں گائے۔ میرے علاوہ، اُن کے پرستاروں کے ذہن میں بھی اِس طرح کے سوالات ہیں۔ میں نے اُن کی نمایندگی کرتے ہوئے جَون بھائی سے اِس بات چیت کے دوران بہت کچھ پوچھا۔ اِس گفتگو کا خلاصہ قارئین کی نظر ہے :

جَون بھائی کی گلوکاری کا سفر 20 مئی 1950 کو ریڈیو پاکستان کراچی سے سیف ؔالدین سیف صاحب کے لکھے ہوئے گیت سے ہوا۔ پھر جلد ہی شہر کے موسیقی کے فنکشنوں اورمحفلوں میں شرکت کرنے لگے۔ ”ریڈیو میرا اسکول اور دوسرا گھر تھا۔ وہاں شاعر ارمؔ لکھنوی، بہزاد ؔ لکھنوی وغیرہ اور موسیقاروں میں رفیق غزنوی، مہدی ظہیر اور بہت سے دوسرے لو گوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا تھا۔ اُس زمانے میں ایک پروگرام ’سُنی ہوئی دھنیں‘ ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہو تا تھا، میں بھی اس میں حصہ لیتاتھا۔ اِس پروگرام میں معشوق سلطان، نہال عبد اللہ اور مہدی ظہیر بھی آتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہدی حسن میرے پانچ چھ سال بعد ریڈیو پر آئے“ ۔ جون بھائی 1950 سے 1990 کی دہائی تک موسیقی کی دنیا میں فعال رہے۔

ایس بی جون صاحب قیامِ پاکستان سے پہلے 1942 یا 1943 میں پنڈت رام چندرا تریویدی کے ہاں طبلہ سیکھتے تھے۔ کراچی کے موجودہ سول اسپتال کے سامنے پنڈت جی کا اسکول ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ طبلہ سیکھنے کے دوران گنگنا نے لگے تو پنڈت صاحب نے کہا گانا کیوں نہیں گاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح طبلے کے ساتھ گائیکی کے اسرار و رموز بھی حاصل کرنے لگے۔ ”بس یہی میرے ایک استاد ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلوکار احمد رشدی کو میں ہی سب سے پہلے منظر پر لایا۔

میں کسی محفل میں طلعت محمود کے گیت گا رہا تھا۔ احمد رشدی بھی وہاں موجود تھا۔ وہ کہنے لگا کہ میں بھی گانا چاہتا ہوں۔ میں نے ہارمونیم اُس کے آگے کیا تو کہنے لگا کہ مجھے بجانا نہیں آتا پھر میں نے ہارمونیم بجایا اوراُ س نے طلعت محمود کا گیت: ’میں پاگل میرا منوا پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ سُنایا۔ یہیں میں نے احمد رشدی کواسٹیج پر روشناس کرایا ”۔

” بچے تو پالنے تھے، گھر بھی چلانا تھا لہٰذا ’گرینڈلیز بینک‘ میں ٹیکنیکل اور مینٹینینس کے شعبے میں ملازمت کی۔ شام اور رات کو موسیقی کاسلسلہ بھی چلتا رہا۔ کراچی کے ایک معروف فلم اسٹوڈیو کے چیف ساؤنڈ ا نجنیئر اقبال شہزاد صاحب کے اسسٹنٹ ہاشم قریشی صاحب تھے میرا اُن سے دوستانہ تھا۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ رفیق رضوی صاحب کی ایک آنے والی فلم میں، فلم کے موسیقار نئے گلوکاروں کے آڈیشن لے رہے ہیں تم بھی قسمت آزمائی کرو۔ اِس سے پہلے مجھے اکثر یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا تھا کہ میری آواز پلے بیک سنگنگ کے لئے نا موزوں ہے، لہٰذا میں جانے سے ہچکچایا لیکن پھر چلا ہی گیا“ ۔

یہاں جون بھائی نے ایک بہت پیاری اور دل کو لگتی بات کہی۔ وہ کہتے ہیں : ”بائیبل مقدس کی ایک آیت ہے :“ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی کونے کے سِرے کا پتھر ہو گیا، یہ خدا کی طرف سے ہوا جو ہماری نظر میں عجیب ہے۔ ”یہ میری زندگی پر پورا اترتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ اُس دن مجھے خاصا ’فُلو‘ تھا۔ ماسٹر صاحب نے کہا کچھ سُناؤ میں نے فلوکے ہونے کی بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ فلو میں آواز اور زیادہ اچھی ہو جاتی ہے۔

مجھے سننے کے بعد ماسٹر صاحب پیار سے بولے کہ تو پہلے کہاں تھا؟ ۔ ۔ ا ور میرا انتخاب ہو گیا۔ جس شخص کو یہ کہا جاتا رہا تھا کہ اُس کی آواز فلموں کے لئے مناسب نہیں اُس کا پہلا گیت ہی اس کی پہچان بن گیا۔ لہٰذا میں ”وہی سِرے کا پتھر بن گیا“ جس کو معماروں نے مسترد کر دیا تھا اور یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہی ہوا ”۔

اِس فلم کے موسیقار ماسٹر منظور، شاہ عالمی والے ( لاہور کے مشہور علاقہ شاہ عالمی کی نسبت سے ) تھے۔ ایس۔ بی۔ جون اور فلم ’سویرا‘ کے حوالے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ میں بھی کل تک یہی سمجھتا رہا اور انٹرنیٹ پر موجود مواد میں بھی یہی درج ہے کہ فلم سویرا کے مذکورہ گیت کی موسیقی، ماسٹر منظور اشرف نے دی تھی۔ پھر اِس فلم کی ریلیز کے دس سال بعد 1967 میں منظور اشرف صاحبان کی جوڑی ٹوٹ گئی اور اشرف صاحب، ایم۔ اشرف کے نام سے اپنی وفات تک موسیقی دیتے رہے۔ میری جون بھائی سے اس حوالے سے بات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا : ”بے شک اِس گیت کے موسیقار ماسٹر منظور ہی تھے لیکن اُن کا منظور اشرف صاحبان یا موسیقار ایم اشرف سے کوئی تعلق نہیں۔ اُن کی اپنی شناخت“ ماسٹر منظور، شاہ عالمی والے ”کی حیثیت سے ہے اور اس گیت کے ساتھ اسی نام سے اُن کی پہچان ہونا چاہیے۔ تم ضرور اِس غلطی کو اپنے کالم کے ذریعے درست کرو“ ۔

جون بھائی نے کہا: ”جس طرح ہر پڑھا لکھا شخص مصنف نہیں ہوتا اسی طرح موسیقی جاننے والا کمپوزر نہیں ہوتا۔ پاکستان اور ہندوستان میں ہلکی پھلکی موسیقی / لائٹ میوزک کو جب بھی عروج ملا وہ Amature یا اُن کی وجہ سے ملا جن میں موسیقی کی خدا داد صلاحیت موجود تھی اور اُنہوں نے اپنی محنت سے موسیقی کے اسرار و رموز بھی حاصل کیے پھر ا نہیں استعمال کرتے ہوئے لاجواب کام انجام دیے۔ مثلاً مدن موہن صاحب، شنکر اور جے کشن صاحبان، لکشمی کانت اور پیارے لال صاحبان، خواجہ خورشید ا نور صاحب، نثار بزمی صاحب وغیر ہ۔ اسی طرح فلمی گلوکاروں میں لتا منگیشکر اور آشا بھونسلے صاحبہ، مُکیش، طلعت محمود اور محمد رفیع صاحبان“ ۔

ایک اور دلچسپ واقعہ سُناتے ہوئے کہا: ”یہ 60 کی دہائی کا ذکر ہے۔ سی ارجُن نام کے ہمارے ایک پیر بھائی تھے جن کی پاکستان چوک میں گھڑیوں کی دُکان تھی۔ ہم دونوں کے ایک اور پیر بھائی، سی لکشمی چند، بمبئی میں رہا کرتے تھے۔ میرا بمبئی جانے کا ارادہ ہوا۔ ارجُن صاحب بھی ساتھ چلے۔ وہاں میں نے لتا جی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہاں جِس نے بھی اِس بات کو سُنا اُس نے کہا کہ وہ کب کسی سے ملتی ہیں۔ میں نے کہا کوشش کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ اِس طرح میں اور سی ارجُن لتا جی کے گھر پہنچ گئے۔ اُس زمانے میں وزٹنگ کارڈ کہاں ہوتے تھے لہٰذا ایک پرچہ پر ایس بی جون، پاکستان سے، لکھ کر ملازم کو دروازہ پر دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اُسی ملازم نے ہم دونوں کو ایک بڑے سی بیٹھک میں پہنچا دیا۔ اِس وسیع کمرے میں ایک بھی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے اندازہ ہوتا کہ یہ کسی گلوکارہ کی بیٹھک ہے۔ کمرے میں ایک“ گرنڈک ”کا ریڈیو گرام رکھا ہوا تھا جِس پر فریم میں امریکی پیانسٹ اور گلوکار نیٹ کنگ کُول Nat King Cole کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ ۔ تھوڑی ہی دیر میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑے خوش دلی کے ساتھ لتا جی نمودار ہوئیں“ ۔ اور کہا: ”آپ کا نام بہت سُنا اب مل کر بہت اچھا لگ رہا ہے“ ۔

” اِس ملاقات میں پاکستان کی فلموں اور موسیقاروں، گلوکاروں پر کافی باتیں ہوئیں۔ پھر میں اور ا رجُن لتا جی سے اجازت لے کر اُوشاکھنّا سے ملنے ایک ریکارڈنگ اسٹوڈیو چلے گئے۔ اُوشاکھنّا بھارتی فلمی صنعت کی تین خواتین موسیقاروں میں سب سے زیادہ معروف میوزک ڈائریکٹر تھیں۔ 1959 میں بحیثیت موسیقار، اُن کی پہلی فلم ’‘ دل دے کے دیکھو“ تھی ”۔ 1979 میں گلوکار کے جے یسوداس کو اِن کی ترتیب دی ہوئی طرز پر بہترین گلوکار کا“ فلم فیئر ’‘ ایوارڈ مِلا۔ وہ فلم ”داد ا“ میں کَلوَنت جانی کا لکھا ہوا گیت ہے :

دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسکرا کے چل دیے
جاتے جاتے یہ تو بتا جاہم جئییں گے کس کے لئے

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2