قوال پارٹی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پسماندہ سے گاؤں میں ایک تھی قوال پارٹی، جس میں ایک بڑا قوال (جو اصل میں دو تھے مگر بڑے افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کی جگہ لے لیا کرتے تھے ) اور ان کے ساتھ سازندے، سنگتی، بھانڈ اور مختلف سازہوا کرتے تھے۔ اس پارٹی میں ایک بڑا خوش شکل سازندہ یا سنگتی یا ڈوم ایسا بھی تھا جو بڑے قوال کے پیچھے باقی سب سنگتیوں کی طرح تالیاں بجایا کرتا تھا لیکن ایک دن اُسے سوچنے کا مر ض لاحق ہو گیا۔

اِن قوالوں کے پیچھے تالیاں بجانے والوں میں سوچنے کی بیماری کے جراثیم تک ناپید تھے اس لئے اس سنگتی کے دماغ میں جب سوچیں آنے لگیں تو اسے خود سے خوف محسوس ہونے لگا۔ وہ جب قوالی کر کے باہر نکلتا تو اس کے چہرے سے ٹپکتی فکریں راہ چلتے لوگوں کو رکنے اور اس سے پوچھنے پر مجبور کر تیں کہ کیا تم سنگتی سے قوال بننے کا سوچ رہے ہو؟ یاکیا تم تالی بجانے سے مستعفی ہو کر قوالی کرنے کا سوچ رہے ہو اوروہ گڑبڑا جاتا اور اپنے چہرے پر پھیلی سوچ کی لکیروں کو حتی الامکان چھپاتے ہو ئے کہتا: نہیں نہیں میں تو ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔

میرا کام تالی بجانا ہے۔ میری تالی سے ہی تماشبین اتنے خوش ہو جاتے ہیں کہ اس سے زیادہ میں انہیں کیا خوش کرسکتا ہوں؟ پھر لمبے توقف کے بعد ٹھنڈی سانس بھر کے کہتا، ہاں اگر مجھے لگا کہ میری تالی میں اتنا دم نہیں رہا اور لوگوں کو خوش کرنے کو مجھے قوالی ہی کر نی چاہیے تو پھر اس بارے کچھ سوچا جا سکتا ہے مگر فی الحال تو نہیں۔ پوچھنے والے اس کے معصوم اور سیدھے انداز سے متاثر ہو ئے بغیر نہ رہتے اور اس کی خلوص دلی کو دعائیں دیتے گزر جاتے۔ دیہاتی چاہتے تھے کہ وہ قوال کی جگہ لینے کے جواب میں کبھی ”ہاں“ کہہ دے کیونکہ وہ ایک ہی طرح کی قوالیوں سے اب تنگ آتے جا رہے تھے۔ مگر وہ سنگتی بس سر کو جھٹک کر، ہلکا سا مسکرا کر آگے بڑھ جا یا کرتا تھا۔ وہ سنگتی بڑا کم گو اور شرمیلا بھی تھا۔

دنیا کے گلوبل ولیج بنتے ہی اس پس ماندہ دیہات کے دیہاتی بھی اتنے دیہاتی نہ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ موسیقی کے بارے میں ان کا شعور بڑھنے لگا تھا۔ قوالی میں بھی جدت کے سو طریقے انہیں پتہ چلنے لگے تھے۔ پرانے سازوں کی پھٹی پھٹی آوازیں اب ان کی سماعتوں پر ناگوار گزرنے لگی تھیں۔ وہ جب بھی قوالی سنتے سنتے بور ہو اٹھتے اور نعرہء بوریت بلند کرتے تو گھاک قوال اپنے سازندوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر قوالی وہیں سے شروع کر دیا کرتے جہاں سے سلسلہ منقطع ہوا ہو تا۔

سامعین کی بے قراری کو پھر بھی قرار نہ آتا تو کبھی ڈھول والے کو آگے کر دیتے اور طبلے والے کو پیچھے یا اپنے ہا رمونیم کی ہلکی سی ٹھوکا پیٹی کرتے یا تالیاں بجانے والوں کی جگہیں تبدیل کر دیتے۔ بات زیادہ حد سے بڑھ جاتی یا سامعین میں سے کوئی زیادہ منچلا اور ضدی آ بیٹھتا اور قوال سے مطئمن ہونے کا نام نہ لیتا تو قوال پارٹی کے آرگنائزرز ایک قوال کی جگہ دوسرے قوال کو بلا لیا کرتے تھے۔ دوسرے قوال کے آنے سے سامعین کی سماعتوں اور بصارتوں کو پل بھر کو سکون مل جاتا حالانکہ دونوں قوالوں (جو باریاں لیا کرتے تھے ) کے پاس گانے کوایک ہی طرح کی قوالیاں تھیں، ایک ہی طرح کی موسیقی کیونکہ اس کا فائدہ یہ تھا کہ نہ ان کو، نہ سنگتیوں کو تالیاں بجانے کے لئے اور نہ سازندوں کو ساز ملانے کے لئے زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔ مگر اس سب کے باوجود بدلا ہوا حلیہ، تھوڑی سی بدلی ہو ئی شکل، کم از ایک کا رنگ گورا اور ایک کا کالا تھا، ایک کی مونچھیں اور ایک کلین شیو تھا۔ دیہاتی وقتی طور پر بہل ہی جایا کرتے تھے۔

تمام دیہاتی یہ جانتے ہو ئے بھی کہ یہ قوال، ان سب کوبے وقوف بنارہے ہیں، ایک ہی قوالی کو آگے پیچھے کر کے اورایک ہی جیسی قوالی گانے والوں کو آگے پیچھے کر کے ان کے کانوں کے پردے پھاڑ ے جا رہے ہیں، وہ بظاہر تو بیزار نظر آتے تھے مگر حقیقت میں وہ اس قوالی کے نشے میں مبتلا ہو چکے تھے۔ جس کا ادراک خود انہیں بھی نہیں تھا۔ وہ تبدیلی چاہتے تو تھے مگر کیا وہ تبدیلی کو برداشت کر لیں گے؟ ا سکا انہوں نے نہیں سوچا تھا۔ اور نہ انہیں تبدیلی کا کوئی تجربہ تھا۔ ستر سالوں سے ایک ہی طرح کی موسیقی کی عادت میں مبتلا ہو چکے تھے۔ مگر دیکھنے میں ان کی حالت ابتر ہی لگتی تھی۔

اور ان سامعین کی حالت ِ زارکو دیکھتے اور ان کا پیسہ ضائع ہو تے دیکھ کر ان دو قوالوں کے پیچھے بیٹھ کر سکون سے تالیاں بجانے والے اس شرمیلے سنگتی کو بہت فکر ہو نے لگی جو اس کے چہرے سے بھی عیاں ہو نے لگی تھی۔ وہ چاہتا تھا جو لوگ اتنا پیسہ خرچ کر کے ان کی قوالی سننے آتے ہیں وہ بہت خوش نہ سہی مگر کچھ سکون تو لیتے جائیں مگر اب ایسا ناممکن تھا۔

اس شرمیلے کو بیس سال پہلے قوال پارٹی کے چئیرمین نے آفر کی تھی کہ وہ اسے قوال بننے کی تربیت دلا سکتے ہیں لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھاکہ انہی سازوں اور انہی سازندوں کے ساتھ میں انہی قوالوں کی طرح کی ہی قوالی کروں گا، نیا پن نہیں لا سکوں گا لہذا مجھے معاف ہی رکھا جائے۔ دیہاتیوں کے پاس اس قوالی کے علاوہ تفریخ کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا اوران کی یہی مجبوری قوالوں کے گھر دولت کے انبار لگانے لگی۔

وہ دو قوال اور ان کے گھرانے پرانے راگ الاپتے الاپتے کروڑ پتی بن گئے، ان کے بچے شہروں میں جا کر اعلی تعلیم حاصل کر نے اور بزنس مین بننے لگے۔ دیہاتیوں کا ذوق اور شوق ِ موسیقی دن بدن نیچے گرنے لگا اس کے برعکس قوالوں کے بچے شہروں میں جا کر پاپ میوزک، ریپ اور نجانے موسیقی کی کن کن جدید قسموں اور کن کن آلات سے واقف اور لطف اندوز ہو نے لگے۔

یہ سب دیکھتے ہو ئے رفتہ رفتہ اس کم گو سنگتی کو دیہاتیوں کے غریب بچو ں پر رحم اور قوالوں کے نواب بچوں پر غصہ آنے لگا۔ اور اس غصے کی ابتدا یہاں سے ہوئی جب اس نے سامعین میں ”تبدیلی تبدیلی“ کی آوازیں سنیں۔ اس نے سوچا اب خالی تالی بجا نے سے کام نہیں چلے گا مجھے ان قوالوں کی چھٹی کر دینی چاہیے اور ان کی جگہ خود سنبھال لینی چاہیے اب تک تو میں ایسی قوالی سیکھ ہی چکا ہوں جیسی یہ کرتے ہیں کم از کم میری آواز، سُر اور ساز تو نئے ہو نگے۔ یہ سوچتے ہی اس کے جسم میں جوش سا بھر گیا۔ ”سب تبدیلی چاہتے ہیں تو کیوں نہیں۔ “ (یہ بھی ایک بھول ہی تھی شاید، وہ 5 % کو سو فی صد سمجھا تھا۔ آخر کو تھا تو صرف تالی بجانے والا ہی) ۔

”میں اتنی اچھی تالی بجاتا ہوں توقوالی بھی اچھی ہی کروں گا۔ “ بس یہ سوچتے ہی اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لوگوں سے اس معاملے کے لئے بات چیت شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر اسے حیرت ہو ئی کہ اسے چند دنوں میں ہی سینکڑوں ہمنوا مل گئے۔ اس نے سوچا ان لوگوں کی مدد سے وہ ایک ایسی تحریک چلا ئے گا کہ ان قوالوں کو یہاں سے کوچ کرنا ہی پڑے گا اور وہ پھر سب خود ہی سنبھال لے گا۔ اسے یہ کام بہت آسان لگا۔ ایسے ہی اتنے سال اس نے لوگوں کو اس اذیت سے دوچار ہو نے دیا اور ان کا پیسہ الگ برباد ہوا۔

اسے لگا قوال پارٹی کے آرگنائزر بھی اس کا ساتھ دیں گے اور ان سب عوامل کا سوچ کر اس نے موسم گرما کی ایک ٹھنڈی شام کو، جب قوالی اپنے مخصوص انداز میں جاری و ساری تھی کھڑے ہو کر اپنے قوال بننے کا اعلان کر دیا۔ جو لوگ اس کے بیس سال پہلے قوال بننے والے انکار کو اور اس کی وجہ کو جانتے تھے، سوچنے پر مجبور ہو ئے کہ شاید اب اس نے نئی تربیت، نئے ساز اور نئے سازندے لے لئے ہوں گے جب ہی تو میدان میں اتر آیا ہے اور قوالی کی پوری تربیت بھی لے ہی لی ہو گی۔

قوالی کی تربیت کا تو نہیں معلوم مگر شرمیلے اور کم گو سنگتی کا اب یہ عالم تھا کہ وہ جگت بازی میں پرانے قوالوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکا تھا۔ لوگ اس کے چٹکلوں پر ہنس ہنس کر لوٹ پو ٹ ہو نے لگے اور اسے تو جیسے لوگوں کو ہنسنانے میں مزہ آنے لگا۔ لوگوں کی نفسیات اسے سمجھ آچکی تھی۔ اپنی کم گو ئی اور موسیقی کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کو اس نے سائیڈ پر رکھا اور لوگوں کے مزاج کے حساب سے جگتیں مارنے لگا۔ پرانے اور تجربہ کار قوال سناٹے میں رہ گئے یہ کل کا تالیاں بجا کر قوم کو خوش کرنے والا یہ ہم سے زیادہ لوگوں میں مقبول ہو نے لگا ہے۔

قوال پارٹی کے آرگنائزز تو پہلے بھی ایک دفعہ اسے بڑا قوال بننے کی آفر کر چکے تھے، اس کی مقبولیت دیکھ کر وہ اپنی آفر لے کر پھر سے اس کے دروازے پر آپہنچے۔ وہ اب بھاؤ تاؤ کی تکنیک سیکھ چکا تھا۔ اور سمجھ رہا تھا کہ جیسے وہ چاہتا تھا اب بالکل ویسے ہی ہو گا۔ کوئی ساز یا سازندہ اس کی مرضی کے بغیر اس پارٹی میں نہیں رکھا جائے گا۔ قوال پارٹی کے آرگنائزرز نے کہا ایسا ہی ہو گا۔ اس خواب کو جو اس نئے نویلے دلہے کی آّنکھوں میں جاگے اس نے تصدیق یا تعبیر دیکھے بغیر سننے والوں کو دکھانے شروع کر دیے۔ تبدیلی کے خواہش مند خوش ہو گئے۔ اور اسے اعلی تحت پر بٹھا دیا گیا۔ وہ دلوں پر راج کرنے لگا۔

اور پھر ایکدن اس پس ماندہ دیہات میں وہ قوالی شروع ہو ئی جس کا وہ مین قوال تھا۔ اس کی آنکھیں مسرت سے چمک رہی تھیں۔ پرانے قوالوں کی جگہ اسے دیکھ کر لوگ بھی خوشی سے جھوم اٹھے، کچھ آئیڈلسٹ منچلوں نے تو اٹھ کر ڈھول کی تھاپ پر دھمال بھی ڈالنی شروع کر دی۔ اور جیسے ہی جوش سے لبریز اس نے قوالی کی پہلی تان اٹھائی اور جب سازندوں نے ساتھ دینا شروع کیا تو۔ یہ کیا۔ وہی ساز وہی آواز۔ نئے نویلے (پرانے شرمیلے ) نے مڑ کر سازندوں کو دیکھا۔ اور اس کا دل دھک سے رہ گیا اس کے لائے ہو ئے نئے سازندے سب لائن بنائے ہاتھ باندھے کہیں دور پیچھے کھڑے تھے او ر وہی پرانے ساز پھر سے انہی پرانے سازندوں کے ہاتھوں میں تھے۔ اس نے بے بسی سے تڑپ کر قوال پارٹی کے آرگنائزرز کو دیکھا انہوں نے لاپرواہی سے کندھے اچکا دیے۔

اب وہ کیا کرے اب تو وہ قوالی شروع کر چکا تھا۔ سامعین میں بے قراری اور انتشار پھیلنے لگا۔ جو سامعین پرانے قوالوں کے سخت عادی ہو چکے تھے اور اس نئے چہرے سے پہلے ہی متنفر تھے، بڑھ بڑھ کر نعرے لگانے لگے۔ اس پر پھبتیاں کسنے اور جگتیں مارنے لگے اور کچھ تو گالیاں بھی دینے لگے۔

نئے نویلے کو سمجھ لگ گئی کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے بیس سال پہلے والی آفر نہ ماننے کی سزا یوں ہی ملنا تھی؟

مگر وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھا، کیونکہ ہمت ہارتا تو عمر بھر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ اس سے نئے راگ الاپ کی امید رکھنے والے ابھی بھی صبر سے بیٹھے اس کی وہ تانیں سن رہے تھے اور واہ واہ کر رہے تھے (کہ اس کا حوصلہ نہ ٹوٹے ) اور وہ گلے سے اونچی اونچی آوازیں محض اس خوف سے نکال رہا تھا کہ پرانے سازوں کی آواز میں شاید یہی ”نیا پن“ ہے جو دینا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ سننے والوں کو لگ رہا تھا کہ اس کوشش میں اس کا حلق منہ کوآجائے گا۔

تالی بجاتے بجاتے وہ قوال تو بن گیا مگر لوگوں کو کوئی نیا گیت نہ سنا سکا کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ ستر سال پرانی اس قوال پارٹی میں نہ ساز بدلتے ہیں اور نہ سازندے۔ اور کیا پتہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی بالکل ویسا ہی قوال بن جائے جیسے اس سے پہلے ہو ا کرتے تھے اور لوگوں کو اپنا عادی بنا چکے تھے۔ پرانے سازوں اورسازندوں کے ساتھ کوئی قوال نیا پن کیسے لا سکتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر اپنی حالت ِ زار کے باوجود پرانے راگوں کے سننے والے نشئی اپنا نشہ ٹوٹنے دیں گے؟ کیا وہ سچ میں اس پرانے نشے سے چھٹکارا بھی پانا چاہتے ہیں یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).