قیامتِ صغریٰ اور شاہی روانگی


 مورخہ 19 نومبر 2019، بروز منگل کو حسب معمول صبح 06 بج کر 55 منٹ پر میں گھر سے دفتر کے لئے نکلا اور دستوں کے ساتھ گاڑی میں خوش گپیاں کرتے لاہور کے لئے روانہ ہوا۔ قصور سے سرکاری ملازمین کی کثیر تعداد روزانہ قصور سے لاہور سفر کرتی ہے جن میں اکثریت لاہور ہائی کورٹ، سیشن کورٹ اور سیکرٹریٹ کے ملازمین کی ہوتی ہے۔ 8 بجے کے قریب جب ہم لاہور شہر میں داخل ہو رہے تھے تو ایک افسوسناک فون کال موصول ہوئی جس نے گاڑی میں موجود تمام لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دیے، کال کرنے والے نے بتایا کہ مین فیروزپور روڈ پر قصور سے کوئی 4 سے 6 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع نقیب آباد (بھلُو) کے قریب ایک مزدا ویگن اور اے۔

سی کوچ تیز رفتاری کے باعث آپس میں ٹکرا گئی ہیں اور ڈرائیور، کنڈکٹر سمیت دیگر 11 افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جن میں سیکشن پولیس۔ ون، ہوم ڈیپارٹمنٹ سے محمد ناصر (کلرک) اور صوبائی وزیر برائے کالونیز کا نائب قاصد واجدعلی بھی شامل ہیں اور لاتعداد لوگ زخمی ہیں جن میں سے کچھ انتہائی نازک حالت میں ہیں۔ یہ خبر ایک بجلی کی طرح سب پر گری، کیونکہ ہم میں سے اکثر ملازمین سرکاری گاڑی مِس ہونے کی صورت میں مذکورہ دو گاڑیوں پر ہی آتے ہیں۔

جیسے ہی یہ خبر سول سیکرٹریٹ پہنچی تو تمام دفاتر میں سوگ کی فضا قائم ہو گئی اور ہوتی بھی کیوں ناں، سیکرٹریٹ کے ملازمین میں سے سب سے زیادہ تعداد ضلع قصور سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ یہ حادثہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ کئی دفعہ پیش آ چکا ہے اور خصوصا موسمِ سرما میں جب دھند پڑتی ہے تو شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہوجس دن کوئی چھوٹا یا بڑا حادثہ اِس روڈ پر دیکھنے کو نہ ملتا ہو۔ پیش آنے والے حادثات میں اکثر کی وجہ ہی تیز رفتاری ہوتی ہے جس میں دودھ، سبزیاں اور برائلر مرغی لے کے آنے والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ مسافر بسیں بھی شامل ہیں۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ آج تک اِن حادثات کی روک تھام کے لئے سیکرٹری ڈی۔ آر۔ ٹی۔ اے، ڈی۔ سی قصور یا حکومتِ پنجاب نے کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اُٹھایا۔ جب قصور میں یہ قیامت برپا ہوئی اور کئی سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، کئی بچے یتیم ہوئے، بہت سی ماؤں نے اپنے لعل اجل کے حوالے کیے، عین اُسی وقت عارف والا میں پاکپتن روڈ پر بھی اِسی نوعیت کا حادثہ پیش آیا اور 03 لوگ موقع پر جان، جانِ آفریں کے سپرد کر گئے اور متعد زخمی ہو گئے۔

جب میں 9 : 15 دفتر پہنچ کر ٹی۔ وی آن کیا تو میرا دل خون کے آنسو رونے لگاکہ ہمارے تمام بکاؤ میڈیا چینلز اور اُن پر بیٹھ کر بھونکنے والے تمام پالتو کُتے جو ہر گزرتے پل کے ساتھ بریکنگ نیوز دے رہے ہوتے ہیں اتنے بھیانک حادثات پر ایک تعزیتی جملہ لکھنے اور خبر دینے سے بھی قاصر تھے اور اپنے مالک سے نمک حلالی کرتے ہوئے نواز شریف کی لندن روانگی کے Exlcusiveمناظر دکھانے میں مصروف تھے۔

انہیں اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ اُن لوگو ں کے اہلِ خانہ کے دکھ میں شریک ہو کر ایک جملہ ہی کہہ دیں، جو اپنے بچوں سے واپسی پر کھلونے لانے کا وعدہ کر کے کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلے گئے، جو اپنی بیوی سے جلدی کھانا تیارکرنے اور دفتر سے جلدی واپس آنے کا کہہ کر وعدہ خلافی کر گئے، جو اپنے بیمار والدین کے لئے دوا لینے کے لئے نکلے مگر اُنکی تکلیف میں اور اضافہ کر گئے۔ کیا انسان کی یہی وُقعت ہے؟ انسانی زندگی اتنی ارزاں ہے کہ 10، 12 یا 15 لوگ ایک ساتھ مر بھی جائے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ہم ہر بات پہ بڑھتی ہوئی آبادی کا رونا روتے ہیں، کہیں ہم آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے تو چُپ نہیں ہیں؟ کیا تیز رفتاری کے باعث پیش آنے والے اِن حادثات کی روک تھام کیاصرف اِ س لئے نہیں کی جاتی کہ لوگ مرتے رہیں اور ہماری آبادی کم ہوتے ہوتے وسائل کے تناسب سے باقی رہ جائے تا کہ ہمیں تعلیم، نوکری، صحت، غذا اور دیگر بنیادی ضروریات کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میں اِن بے ضمیر لوگوں سے پوچھنا

چاہتا ہوں کہ:

یہ شاہرائیں اِسی واسطے بنی تھیں کیا

کہ اِن پہ دیس کی جنتا سسک سسک کر مرے؟

زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اُگلا تھا

کہ نسلِ آدم و حوا بِلک بِلک کر مرے؟

مِلیں اِس لئے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں

کہ دُخترانِ وطن تار تا ر کو ترسیں؟

چمن کو اِس لئے مالی نے خون سے سینچا تھا

کہ اُسکی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں؟

بائیس کروڑ لوگوں میں سے وہ چند سو ذہین دماغ جو سی۔ ایس۔ ایس کر کے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں اور و ہ حکمران جو عوام کی فلاح و بہبود کے دعوے کرکے مسندِ حکومت پر براجمان ہوتے ہیں کسی کے پاس اِس مسئلے کا حل نہیں ہے یا پھر اِ س کا حل نکالنا ہی نہیں چاہتے؟ کیا اربابِ اختیار اور بیوروکریٹس کے لئے انسانی زندگی کو بچانے کے لئے کیے جانے والے اقدامات میں بھی ذاتی مفاد ہی عزیز ہے؟ میں مانتا ہوں کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے حکمران اور سرکاری دفاتر میں بیٹھے بیوروکریٹس ہوسِ مال میں اِس قدر گُم ہیں کہ اُن کے لئے اتنے لوگوں کا مرجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

سیکورٹی سڈیزکا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناتے میں اِن صاحبانِ عقلِ سلیم سے گزارش کرنا چاہوں گاکہ جیسے آپ نے مختلف محکموں کے لئے کمپلینٹ سیل بنائے ہیں ایسا ہی ایک شکایت سیل ہر ضلع میں ڈی۔ سی کی سربراہی میں بھی بنایا جائے اور سیکرٹری DRTAکو اُسکا نگران مقرر کیا جائے، جس میں مسافر تیز رفتاری یا کسی بھی قسم کی شکایت صرف ایک فون کال یا ای۔ میل پر رجسٹرڈ کروا سکیں پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کے لئے بھی قانون بنایا جائے کہ تیز رفتاری کی شکایت پر کم اَز کم 10 سے 15 دن گاڑی بند کی جائے اور ڈرائیور کا لائسنس نمبر نوٹ کرتے ہوئے اُسے ایک وارننگ جاری کی جائے اور تین وارننگ لیٹر وصول کرنے والے ڈرائیور حضرات کا لائسنس فوری منسوخ کیا جائے۔ پھر دیکھئے گا کہ اِن حادثات میں کمی واقع ہوتی ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).