ماؤنٹ بیٹن اور قائداعظم


\"mubashir

’’دوپٹے پیکو کے لیے دیے تھے۔ تیار ہوگئے ہوں گے۔ آپ یہیں ٹھہریں، میں یوں گئی اور یوں آئی۔‘‘ میری بیوی نے کہا۔
میں نے گاڑی پارک کی اور سڑک کے دوسری طرف پرانی کتابوں کے ٹھیلے کا رخ کیا۔ وقت کم تھا اس لیے سب سے اوپر رکھی ہوئی کتاب اٹھائی اور پوچھا، ’’کتنے پیسے؟‘‘
ٹھیلے والے نے کچھ قیمت ضرور بتائی لیکن میں نے نہیں سنی۔ پانچ سو کا نوٹ آگے بڑھایا اور اس نے ڈیڑھ سو کاٹ کر باقی پیسے میرے حوالے کیے۔
نئی کتابوں کی دکان کے سامنے سے میں بغیر کچھ خریدے گزر سکتا ہوں لیکن پرانی کتابوں کی کسی دکان، ٹھیلے یا فٹ پاتھ سے تبرک لیے بغیر گھر نہیں جاسکتا۔ اگر وقت اور پیسے کم ہوں تو سب سے اوپر رکھی ہوئی کتاب دیکھے بغیر خرید لیتا ہوں۔ اگر میں آپ کو ان کتابوں کی فہرست دکھاؤں، جنھیں میں نے اسی طرح بغیر دیکھے خریدا ہے، تو آپ بے ہوش ہوجائیں گے، یا اگر ہوش میں رہے تو مجھے دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا قرار دیں گے۔
بیوی یوں گئی اور یوں آئی لیکن اس سے پہلے میں کار تک پہنچ چکا تھا۔ گھر آکر کتاب دیکھی، ’ماؤنٹ بیٹن، 80 ایئرز ان پکچرز‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا ہم سے کیا رشتہ ہے؟
چودہ اگست آرہی ہے۔ یہ تاریخ ہی کہے دیتی ہے کہ تاریخی رشتے داری ہے۔
کتاب کھول کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا ہے۔ برٹش انڈیا کے آخری وائسرائے لکھتے ہیں، ’’میں نے ہمیشہ اپنی سوانح لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ خود بھی لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن میرے پاس تصاویر کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ کچھ دنوں سے انھیں رہ رہ کر دیکھ رہا تھا۔ قریبی دوستوں نے کہا کہ ان یادگار تصاویر کا منظر عام پر نہ آنا بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ یہ سوچ کر میں نے ان ہزاروں تصاویر میں سے چند کا انتخاب کیا اور اپنی زندگی ان کے ذریعے بیان کردی۔‘‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن، آپ جانتے ہوں گے کہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ملکہ وکٹوریہ ان کی پرنانی تھیں۔ کتاب کی پہلی تصویر میں وائسرائے صاحب اپنی پرنانی کی گود میں نظر آرہے ہیں۔
کتاب کے صفحات پلٹنے سے پہلے میں نے انٹرنیٹ کے صفحات پلٹے۔ یہ تو مجھے یاد تھا کہ ماؤنٹ بیٹن کو آئی آر اے نے قتل کیا تھا لیکن سنہ یاد نہیں تھا۔ وکی پیڈیا نے بتایا، 1979۔

\"jinnah-mountbaton\"اس کتاب کا سنہ اشاعت کیا ہے؟ ارے، 1979؟ لیکن اس میں ماؤنٹ بیٹن کی تاریخ وفات درج نہیں۔ اوہ! ماؤنٹ بیٹن کو علم نہیں تھا کہ ان کی تصویری سوانح چھپتے ہی موت انھیں آ لے گی۔ یہ کیسا عجیب اتفاق ہے؟
224 صفحات کی کتاب میں سیکڑوں تصاویر ہیں۔ بے شک بیشتر بلیک اینڈ وائٹ ہیں لیکن سب یادگار ہیں، سب قیمتی ہیں۔ سب سے زیادہ قیمتی وہ تصویر ہے جس میں لارڈ صاحب قائداعظم سے گفتگو کررہے ہیں۔ قائداعظم کے چہرے پر تناؤ ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ انگریز بہادر انھیں قائل نہیں کرسکا۔ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ کتاب میں اس ملاقات کا احوال ان الفاظ میں درج ہے:

If any one man held the future of India in the palm of his hand in 1947, that man was Mohammad Ali Jinnah. Mountbatten adopted the same technique with him that he had used for all the other leaders – using their first meeting to get to know each other. This surprised Jinnah who after a while relaxed but nonetheless remained cold. It was Jinnah who, more than anybody else, made Partition inevitable. He would accept no compromise.

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments