ہندوستان سے ایک کتاب


خاک نشین نہ خاک گزیدہ، خاکی رنگ کا ایک لفافہ ڈاک میں میرا منتظر تھا جب میں ایک مختصر سفر کے بعد واپس آیا۔ کئی رسالوں، کتابوں کے درمیان الگ سے رکھا ہوا تھا۔ اس لیے میں نے فوراً اٹھا کر دیکھ لیا۔ اس پر سرکاری مُہر لگی ہوئی تھی۔ الٹ پلٹ کر دیکھا، دفتر کا نام بھی نامانوس لگا۔ وہ بھی محفّف الفاظ کے ساتھ معمّہ بنا ہوا تھا۔ میں لاہور میں فیض میلے میں شرکت کرکے آیا تھا، اس لیے طبیعت میں سرشاری بھی تھی۔ ہاتھ منھ دھو کر تازہ دم ہوا، ایک پیالی چائے پی۔ تب وہ لفافہ کھول کر دیکھا۔ ڈانٹتا ڈپٹتا ہوا خط تھا، اس لیے کچھ سمجھ میں آیا، کچھ نہیں۔ خالی جگہ میں میرا نام بال پوائنٹ سے لکھا تھا، باقی سب کمپیوٹر سے پرنٹ کیا گیا تھا۔ یعنی مضمون واحد تھا۔ دو بار پڑھا، بہت غور کیا تب سمجھ میں آیا کہ سرکار کی نظروں میں مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوگئی۔

خط کا انداز بھی ایسا تھا کہ پہلے خاک سمجھ نہ آیا۔ گھن گرج بہت تھی، اس لیے سمجھ میں آگیا کہ قصور وار ہوں میں اور اس خطا پر برہمی کا اظہارکیا جارہا ہے۔ پورا پڑھ گیا، پلّے نہیں پڑا۔ پھر دوبارہ ایک ایک لفظ پڑھا۔ اس خط کا سبجیکٹ یہ تھا کا کسٹمز ایکٹ 1969 ء کے سیکشن 82 کے تحت نوٹس جاری کیا جارہا ہے۔ یہ کلیئرنگ نوٹس کہ فلاں نمبر کی یادداشت، بتاریخ ندارد، جاری کیا گیا تھا کہ امپورٹ سے متعلقہ دستاویزات جمع کرائی جائیں بابت پیکٹ مندرجہ بالا تاریخ مندرجہ بالا۔ اس پیکٹ کے مشمولات میں ایک کتاب ہے (بُک، میڈ ان انڈیا) جو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ کلیئرنس کے بغیر پڑے ہوئے ہیں۔

لہٰذا مجھ سے درخواست کی گئی ہے۔ شُکر ہے تنبیہہ نہیں کی گئی۔ کہ اس نوٹس کے اجراء کے سات دن کے اندر اس پارسل کی کلیئرنس کروالی جائے ورنہ اس کو Abandoned قرار دیا جائے گا اور محولہ بالا قانونی ایکٹ کے تحت اس کا ”ڈسپوزل“ کر دیا جائے گا اور مجھے اس کی مزید اطلاع دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

بُک؟ میڈ ان انڈیا؟

اوہو، تب سمجھ میں آیا۔ کسی نے مجھے ہندوستان سے کوئی کتاب بھیج دی ہے۔ یہ سارا قضیہ اسی کا ہے۔

کتاب۔ اور ہندوستان سے۔ اب کیا ہوگا؟ میں نے جلدی سے اوپر کے کونے میں خط کی تاریخ پر نگاہ ڈالی۔ اس تاریخ کو سات دن گزر چکے تھے۔ کسی بھی لمحے اسے ”ڈسپوزل“ کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ میرے ذہن میں فوراً بم ڈسپوزل کا خیال آیا اور میں کتاب کے ڈر سے کانپ اٹھا۔ کتاب دھماکا نہ کردے۔ آخر ہندوستان سے آئی ہے۔

خط کا مضمون بھانپ لیا تو اس پر عمل لازم تھا۔ سات دن کی مہلت ختم ہو رہی تھی۔ پھر نہ جانے کیا کریں، مشکیں کس لیں گے یا گردن ناپ لیں گے۔ سرکار کی نظروں میں مجرم قرار پاؤں گا۔

اگلا مرحلہ عمل کا تھا۔ حاضر ہونا تھا۔ خط کا سرنامہ دوبارہ دیکھا۔ کونے میں پر پھیلائے پرندے والا طُغریٰ بنا ہوا تھا۔ شاہین ہوگا، میں نے اندازہ لگایا۔ حالاں کہ موقع کی مناسبت سے کبوتر ہونا چاہیے تھا۔ پیغام رسانی کا جو معاملہ تھا۔ مگر شاہین کو روک ٹوک کرنا مناسب نہیں، چاہے وہ کاغذی کیوں نہ ہو۔ اس کے ساتھ دفتر کا نام اور حکومتِ پاکستان لکھا ہوا تھا۔ مگر کوئی اتہ پتہ نہیں۔ کیا یہ دفتر گلی، محلّے کے بغیر ہے؟ ڈاک خانے سے متعلّق ہے اور ڈاک کا پتہ درج نہیں۔ ٹیلی فون نمبر، فیکس نمبر، ای میل کچھ بھی نہیں۔ شاید ان سے رابطہ صرف کبوتر کے ذریعے ممکن ہے۔ میرا مطلب ہے شاہین سے۔

پھر خیال آیا اس دفتر کے نام کو گوگل کرکے دیکھتے ہیں۔ میں بھی تو جدید زمانے کا شہری ہونے کا ثبوت دوں۔ دفتر کا نام ٹائپ کیا اور نقشہ دیکھا۔ دفتر کا نام دو جگہ ابھر کر آیا۔ میں نے غور کیا کہ شارع فیصل ہے، یہ دفتر تو سڑک پر آتے جاتے دیکھا ہے۔ اندر جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ سو اس بہانے وہ بھی سہی۔

شارع فیصل میں ادھر سے ادھر جانا آسان نہیں۔ پورا چکر کاٹ لیں تب کہیں مُڑنا ممکن ہوتا ہے۔ چلیے یہ بھی سہی۔ راستہ تو سیدھا تھا۔ گھوم پھر کے وہاں پہنچ ہی گیا۔ خلاف معمول عمارت کے باہر بالکل خاموشی تھی اور سناٹا۔ اندر داخل ہوا تو دن کے وقت بھی دھندلا پن۔ کاغذوں سے اٹی تین چار میزوں پر ڈھلکتی عمروں والے چند ایک لوگ نیلے بلب کی روشنی میں مجھ ایسے آنے والے کو چونک کر دیکھ رہے تھے۔

دوسری یا تیسری میز پر ایک صاحب عینک لگائے بیٹھے ہوئے تھے اور بڑے زور سے جمائی لے رہے تھے۔ میں نے ان سے مدعا بیان کیا۔ انہوں نے پہلے میرے ہاتھ میں کاغذ کو دیکھا، پھر مجھے۔ کاغذ اوپر سے نیچے تک پڑھا۔ پھر بھنووں کے اشارے سے کہا، اوپر چلے جایئے۔ سامنے کمرے کا دروازہ نظر آرہا ہے؟ اس کے برابر کمرہ ہے۔ فلاں شخص کو پوچھ لیجیے۔ انہوں نے ایک نام لیا۔

سیڑھیاں ڈھونڈتا ہوا میں اوپر چلا گیا۔ اس کمرے میں نہیں، اس کے برابر والے کمرے میں اس شخص کا نام پوچھا۔ ایک آدمی اپنی میز کے سامنے کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ آج وہ آیا نہیں، اس نے کہا۔ اب میں کیا کروں، میں سوچنے لگا۔

یہاں کس نے بھیجا ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔

وہ نیچے بڑے صاحب نے، میں نے ا وپر سے دیکھنا چاہا مگر ان کی ڈیسک ستون کے پیچھے تھی۔

ان صاحب نے وہ خط پھر پڑھا۔ میری طرف دیکھا۔ یہ کیس یہاں کا نہیں ہے۔ آپ کو آٹی سی جی جانا چاہیے۔

وہ کیا ہوتا ہے اور کہاں؟ میں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ ایئرپورٹ پر کارگو آفس کے ساتھ ہے۔ ایئرپورٹ بھی وہ اسٹار گیٹ سے جایئے، پرانا والا راستہ۔ جس سے اب حاجی جایا کرتے ہیں۔

اسٹار گیٹ سے الٹے ہاتھ جایئے۔ وہاں کسی سے پوچھ لیں، پان شیڈ، وہاں چلے جایئے۔ یہ ہدایات گرہ میں باندھ کر میں اس طرف چلا۔

اسٹار گیٹ سے پرانا راستہ اور اس کے بعد گول گول چکر کھاتے ہوئے راستے۔ جدھر راستہ لے جاتا رہا میں اس طرف چلتا گیا۔ ایک جگہ بیریئر لگا ہوا تھا۔ وہاں رک گیا اور کھوکھے میں بیٹھے ہوئے آدمی سے پوچھا، فلاں دفتر کہاں ہے۔

اس طرف، اس نے انگلی اٹھا کر سمت کا اشارہ کیا۔ وہ اسکوٹر، وہ گاڑی اس کے سامنے۔ پارکنگ کی پرچی کٹوا کر میں مڑا کہ ایک آدمی جو اس کھوکھے کے سامنے اسکوٹر پر بے دھیانی کے انداز میں بیٹھا ہوا تھا، کھڑا ہوگیا۔ کیا کام ہے، خط دکھایئے، اس نے مجھ سے کہا۔

خط میں نے اس کے سامنے رکھ دیا گویا حالِ دل ہو جو اس سے بھی کہنا ضروری تھا۔

اس نے خط کو اوپر سے نیچے تک پڑھا، پھر اس طرح مجھے دیکھا اورمجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اس طرف ہے، میں سارا کام کروا دوں گا۔ میرے قدم میں شاید ہچکچاہٹ تھی، اس لیے وہ بھانپ گیا۔ میں سارا کام کروا دوں گا، دو ہزار روپے لگیں گے۔

اب میری چونک پڑنے کی باری تھی۔

اور نہیں تو کیا، پہلے آپ کی فائل کھلے گی۔ وہ فائل صاحب کے سامنے جائے گی۔ اس نے پورے عمل کے مرحلے گنوانے شروع کیے۔

میں اس کی بات سنتا رہا اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ دیواروں کے بیچ میں دروازہ نہیں تھا، سوراخ سا تھا جو شٹر ڈال کر بند کیا جاتا ہوگا۔ شٹر کا رنگ نیلا تھا، میں دیکھتا رہا اور اس بڑے سے موکھے میں داخل ہوگیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2