آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا ہوا؟


آج اسلام آباد کا موسم ابرآلود ہے۔ خنکی معمول سے زیادہ ہے۔ سرد موسم کے باوجود آئینی فیصلوں نے درجہ حرارت کا پارہ بلند کر دیا ہے۔

آج سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو جرنیلوں کے بارے میں درخواستوں کی سماعت ہونا تھی۔ سپریم کورٹ میں سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سماعت ہونا تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق آرمی چیف و آمر جنرل پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں 28 نومبر کو فیصلہ روکنے کی درخواست پر سماعت ہونا تھی ۔

سنگین غداری کیس پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر تین رکنی لارجر بینچ نے دن ساڈھے بارہ بجے کرنا تھی ۔

میں بارہ بجے کمرہ عدالت میں پہنچ گیا۔ کمرہ عدالت سول سوسائٹی اور وکلاء سے بھرا ہوا تھا۔ بارہ بج کر 35 منٹ پر عدالتی اہلکار کمرہ عدالت میں آئے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ لارجر بنچ کی کمرہ عدالت میں آمد ہونے والی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے بعد جسٹس عامر فاروق کے بعد جسٹس محسن اختر کیانی کمرہ عدالت میں آئے اور کرسی منصف پر بیٹھ گئے۔ پکار سنائی دی اور وزارت داخلہ کی طرف سے ساجد الیاس بھٹی عدالت میں پیش ہوئے ۔

پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے روسٹرم پر آ کر معزز عدالت سے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی مگر چیف جسٹس نے انھیں یہ کہہ کر بولنے سے روک دیا کہ آپ کے موکل پرویز مشرف تو اشتہاری ملزم ہیں۔ آپ دلائل نہیں دے سکتے۔ جس پر وہ منمناتے ہوئے الٹے قدموں واپس جا کر اپنی نشست پر بیٹھ جاتے ہیں ۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ پرویز مشرف پیش نہ ہوئے تو حق دفاع ختم ہو سکتا ہے۔ کیا آپ سپریم کورٹ کے فیصلے سے آگاہ ہیں؟

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ جب درخواست دائر ہوئی تو کیا آپ اس سے متعلق آگاہ نہیں تھے؟

کیا آپ کو کیس کی مکمل معلومات ہیں؟

آپ کی درخواست میں صرف ایک پیراگراف متعلقہ ہے ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ مصطفی ایمپکس کے تحت کابینہ نے ٹریبونل کی منظوری بھی دی تھی کہ نہیں؟

چیف جسٹس نے وکیل صفائی سے کہا کہ جب آپ کو حقائق ہی نہیں معلوم  تو دلائل دینے کیسے آ گئے؟

اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل دوبارہ روسٹرم پر آتے ہیں اور کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس ریمارکس دیتے ہیں کہ پرویز مشرف اشتہاری ملزم ہیں، ہم ان کی درخواست کیسے سن سکتے ہیں۔ ہم کل کیس رکھ لیتے ہیں، مکمل ریکارڈ کے ساتھ آئیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شفاف ٹرائل ہر کسی کا حق ہے۔ بینچ نے وزارت قانون اور اٹارنی جنرل کو کل دن بارہ بجے طلب کر کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت اہم کیس ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرہ عدالت میں بھی چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے آرمی چیف کے عہدے کی میعاد مین توسیع کا نوٹی فیکیشن معطل کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ اس موقع پر سنائی دینے والی کچھ سرگوشیاں ایسی ہیں کہ ان کا بیان تاریخ کی امانت ہی رہے تو بہتر ہے۔

سماعت ختم ہونے پر میں کمرہ عدالت سے باہر نکلا تو ممتاز قانون دان بیرسٹر ظفراللہ سے ملاقات ہو گئی۔ اُن سے قانونی موشگافیاں جاننے کی کوشش کی۔ اس گفتگو کے بعد میرا تاثر یہ تھا کہ اس ملک میں قانون کی بالادستی کے حوالے سے معاملات ایک اہم ترین موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui