پاکستانی سیاستدانوں کی چند مشہور بدکلامیاں!


یوں تو پاکستانی سیاست اور معاشرے میں اپنے سیاسی اور سماجی حریفوں کے لئے ناشائستہ اور غیر مہذب الفاظ کا انتخاب کوئی نئی بات نہیں، تاہم عوامی معاملات میں بعض اوقات مشہور شخصیات کی زبانی گستاخیاں ان کو مہنگی پڑ جاتی ہیں۔ اگرچہ پاکستانی سیاست میں الفاظ اور بیانات کی روشنی میں، انتخابی محاسبے کی روایات بہت پختہ نہیں ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کی اثر انگیزی نے بہت سے بد زبان سیاستدانوں کو محطاط رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مگر دانستہ یا نادانستہ طور پر اس قسم کی نادانیاں یا خرمستیاں متواتر ہوتی رہتی ہیں۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی زبان درازیاں اور ارباب غلام رحیم کے متنارعہ بیانات بھی میڈیا پر دلچسپ موضوع رہتے آئے ہیں مگر ان کی نوعیت عمومن سیاسی حریفوں سے تخاطب کی سی رہی ہے، چنانچہ ان بیانات کا یہان پر تذکرہ، موضوع سے نا انصافی ہوگا۔ 55 روپے فی کلومیٹر جہاز کے خرچے والا عمران خان کا بیان اور 17 روپے فی کلو ٹماٹر والا حفیظ شیخ کا مشہور بیان بھی یہاں ہمارے موضوع کا حصہ نہیں۔ سندھ کی وزیر صحت عذرا پیچوہو کی جانب سے کتوں کی چھیڑ چھاڑ سے اجتناب کا مشورہ اور وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے جانب سے، مہنگائی سے کسانوں کو ملنے والے فوائد کا دعوی بھی یہاں ہمارا موضوع نہیں۔ لہذا ہم یہاں پر سیاستدانوں کے ان متنازعہ اور مشہور بیانات کا تذکرہ کرتے ہیں، جن میں عوامی حقارت اور ہتک آمیزی کا عنصر شامل ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے جب 12 مئی کے سانحے پر تبصرہ کرتے ہوئے، اسے اپنی طاقت کا مظاہرہ کہا تھا تو عام زندگی سے میڈیا کے حلقوں تک شدید برہمی کا اظہار کیا گیا تھا، تاہم اس وقت آمرانہ حکومت اور آج کے مقابلے میں نسبتاً کمزور سوشل میڈیا کے سبب اس بیان پر زیادہ عام تبصرے نہیں ہو سکے تھے۔

چند سال پہلے سندھ کے سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ نے تھر میں خوراک کی کمی اور پیچیدہ امراض سے، بچوں کے اموات پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ”بچے تو دوران زچگی اناڑی دائی جنائی کی کھینچ تان کرنے سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ “

قحط سالی اور صحت کی ناکافی سہولیات میں بچوں کی اموات کے غم سے دوچار تھری عوام پر یہ ہتک آمیز بیان بم بن کر گرا تھا اور کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر اس بیان پر تنقید ہوتی رہی تھی۔

سندھ کے موجودہ اسپیکر آغا سراج درانی نے پچھلے عام انتخابات سے چند مہینے قبل، ایک عوامی اجتماع میں اپنے ووٹروں سے مخاطب ہو کر کہا تھا: ”میں آپ کے ووٹ پر پیشاب کرنا بھی پسند نہیں کروں گا۔ “

یہ بیان نہ فقط ہمارے ہاں جمہوری اقتدار اور سیاسی نفسیات کا آئینہ بن گیا تھا بلکہ اس بیان نے سوشل میڈیا پر ایک مذمتی ٹرینڈ بنا دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہی پیشاب زدہ ووٹوں نے بعد ازاں آغا سراج کو دوبارہ منتخب کرکے، اس متنازعہ بیان کی تائید کردی تھی!

چند ماہ قبل سندھ کے سابق وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے فرائض میں غفلت برتنے والے اساتذہ کو دھمکی دیتے ہوئے ایک سندھی محاورہ استمال کیا تھا، جس کی مرادی معنی تو کسی کو تنگ اور برباد کرنا تھی، تاہم لغوی اعتبار سے اس محاورے کی بنیاد کسی کی بیوی کو دربدر کرنے پر محیط تھی، چنانچہ سوشل میڈیا پر اس جملے پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔

چند سال قبل سندھ اسمبلی میں، حزب اختلاف کی ایک عورت ایم پی اے نصرت سحر عباسی کو جب حکومتی مرد ایم پی اے امداد پتافی نے نازیبا الفاظ کہے تھے تو یہ سوشل میڈیا پر ایک اشو بن کر ابھرا تھا، جس کے دباوُ تلے، بعد ازاں امداد پتافی کو نصرت سحر عباسی سے معافی بھی مانگنا پڑی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).