میانوالی کے دکھ: ظفر خان نیازی (مرحوم) بنام افضل عاجز


قارئین، آپ سے وعدہ تو پچھلے کالم میں یہ کیا تھاکہ تھل جیپ ریلی سمیت لیہ کے موضع سمرا نشب میں اوقاف کی سو ایکڑ سونا اگلتی زمین پر قبضہ کی کہانی کو آگے لے کر چلوں گا لیکن ابھی اور انتظار کرلیتے ہیں کہ شاید اس سلسلے میں وزیراعلی عثمان بزدار اور ڈپٹی کشمنر لیہ ذیشان جاوید کی طرف سے یہ خوشخبری مل جائے کہ اوقاف کی سو ایکٹر زمین سے سابق ضلع ناظم ملک غلام حیدر تھند کا قبضہ ختم کرادیاگیا ہے۔ اور وزیراعلی بزدارنے اوقاف کی اس سو ایکڑ زمین پر سندھ یونیورسٹی لیہ کی شکل میں تھل کے طالب علموں کوتحفہ دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ میانوالی کے بعد ضروری سمجھا کہ معروف شاعر ظفر خان نیازی مرحوم نے جو تھل دھرتی کے شاعر افضل عاجز کے نام ایک خط لکھا تھا، اس کو آپ کے ساتھ شئیر کیا جائے تاکہ وزیراعظم خان کو بھی پتہ چل سکے کہ میانوالی دھرتی کے ساتھ کیا ایشوز ہیں؟ کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم خان وہ توجہ میانوالی کو نہیں دے رہے ہیں، جس کی تھل بالخصوص میانوالی کی عوام کو ضرورت ہے۔ ظفرخان نیازی صاحب لکھتے ہیں، پیارے افضل عاجز، اس محبت کا تو مقروض ہوں، جس سے آپ نے یاد کیا اور پوسٹ میں میرا ذکر کیا لیکن اس سے زیادہ قرض تو مجھ پر اس مٹی اور اس شہر کا ہے جس کے دکھوں کو آپ نے موضوع بنایا، وہ شہر وہ علاقہ جس کی خوشبودار مٹی سے میرا وجود بننا تھا اور جس کے محفوظ اور محبت بھرے ماحول نے مجھ جیسے یتیم کو تحفظ کی وہ چھتری دی اور پرورش کا وہ ماحول دیا جس سے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور توانائی ملی۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں اور مجھ جیسے ہزاروں فرزندان میانوالی پڑھ لکھ کر اپنی مٹی اور اپنے علاقے کا وہ قرض نہیں چکا سکے اور خارجی حالات کے جبر تلے پستے پستے آخر شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ اپنے علاقے کے منظر نامے سے ہی نکل گئے۔ آہ بن کر دل مضطر سے نکل آیا ہوں میانوالی تیرے منظر سے نکل آیا ہوں۔ جتنا برین ڈرین میانوالی سے ہوا ہے، جتنے گھرانوں نے اس علاقے کو بوجوہ چھوڑا ہے شاید تناسب کے اعتبار سے یہ تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔

اور باقی جو لوگ میانوالی رہ رہے ہیں وہ بھی بچوں کے مستقبل سے مایوس ہو کر موقع ملنے کے انتظار میں ہیں۔ بہرحال، باہر نقل مکانی کرنے اور بہتر زندگی کا آپشن استعمال کرکے اسلام آباد سیٹل ہونے کے بعد جب کبھی میں میانوالی کی بہتری کی بات کرتا ہوں تو میں احساس جرم کے مارے سوچتا ہوں کہ جب میں میدان ہی چھوڑ آیا ہوں تو اب یہ کیسی لڑائی لڑ رہا ہوں۔ اور پھر ستار سید کا ایک شعر یاد آتا ہے :۔ مٹی کا سوندھا پن بھی تعفن میں ڈھل گیا بھٹکا اگر تو اب مجھے گھر کون لائے گا۔

یہ ایک درد ناک حقیقت ہے کہ میانوالی کی خوشبو بکھر کر معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ستر سال سے حکومت پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں یہ لوگ اور یہ علاقہ جس طرح نظر انداز ہوتا رہا ہے اور اس کے وسائل کو دیگر علاقوں کی بہتری کے لئے جس بے دردی سے استعمال بلکہ استحصال کیا جاتا رہا ہے اس سے کسی بزرگ کا یہ خیال صحیح لگتا ہے کہ شمالی پنجاب کے ان علاقوں کو دانستہ اس لئے بیک ورڈ رکھا گیا ہے کہ غربت اور پسماندگی کے سبب یہاں سے فوج کے لئے جوان ملتے رہیں۔

میانوالی کے مسائل کیا ہیں؟ ان موضوعات پر میں آپ اور کئی دیگر دوست تفصیل سے لکھتے رہے ہیں۔ نہری پانی سے محرومی، چشمہ بجلی گھروں میں علاقے کا بجلی کا کوٹہ نہ ہونا، یہاں کی ریل گاڑیوں کو بند کرنا اور ریلوے کے نظام کو برباد کر کے رکھ دینا، سی پیک میں مولوی فضل الرحمان کے گاؤں سے روٹ نکالنا اور میانوالی کو صنعتی زون دیے بغیر کم سے کم روٹ دینا، نوکریوں میں میانوالی کے لوگوں کو نظر انداز کرنا اور ترقیوں کے موقع ہر سرکاری دفتروں میں دھکے دینا، جنرل نیازی کا نام سامنے رکھ کر قومی شکست کا ذمے دار صرف اسی ایک جنرل کو قرار دے کر اور غازی علم دین شہید کی پھانسی کا واقعہ بیان کرکے ساری میانوالی کو مطعون کرنا، یہ فہرست بہت طویل ہے۔

میانوالی اس وقت زخموں سے چور ہے۔ اور ستم تو یہ ہے کہ اس پر طنز و تشنیع کے تیر چلانے میں اس کے اپنے فرزند بھی شامل رہتے ہیں کہ یہ ہمارا قصور ہے ہم ایسے ہیں وغیرہ۔ نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان آج بھی بہت سوں کا ہیرو ہے جس نے افغان پٹی میں گورنر ہونے کے باوجود سکول تک نہیں بننے دیا کہ کہیں لوگوں کو شعور نہ آجائے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ میری ایک پوسٹ کے جواب میں کراچی کی میڈم ایس اے پاشا، جو کہ ریڈیو پاکستان کراچی سے ریٹائر ہوئی ہیں، پاکستان کی مجموعی صورتحال میں میانوالی کے غریب عوام کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلخراش حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتی ہیں ؛۔

”سر جی، یہ ایک میانوالی کی ہی تحریر نہیں ہے ہر گاؤں ہر دیہات ہر قصبے ہر شہر کی ایسی کہانی ہے جو انتہاء مجبوری مین جنم لے رہی ہے جسے ہم Unwanted child کہہ سکتے ہیں، سر جی اپ ہمیشہ ہ میانوالی کے پڑھے لکھے لوگون کا تذکرہ کرتے ہیں جو تھوڑی سی بھی تعلیم حاصل کنے یا کوئی ہنر سیکھنے کے بعد بحالت مجبوری اپنے آبائی شہر کو چھوڑ کر جارہے ہیں ایک طرف تو مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں دوسری جانب سماجی طور پر میانوالی کی ریتی رسم و رواج میں گہری تبدیلی آگئی ہے جوکہ آپ جیسے حساس لوگوں کے لئے دکھ کا باعث بن رہی ہے۔

سر ہم کراچی جیسے بین الا قوامی یا میٹرو پولیٹن شہر میں رہتے ہیں، اسی قدرتی طور پر سیاسی سماجی معاشرت اور اقتصادی تبیدیلیان بہت تیزی سے آئیں، ان تبدیلیوں اور ترقی میں شہر مقامی باشندوں کے ساتھ دوسرے صوبوں سے آنے والون کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کے میانوالی کے وہ محنت کش خواتین بچے بوڑھے کراچی کیون آتے ہی اور یہاں آنے کے بعد کتنی بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ خواتین اور بچے گھروں میں کام کرتے ہیں۔

بوڑھے اور جوان محنت مزدوری کرتی ہیں، بوجھا ڈھوتے ڈھوتے کمر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ خواتین اور بچیوں کے دست نازک برتن کپڑے دھوتے جھاڑو پوچھا کرتے کتنے زخمی ہو جاتے ہیں۔ نواب زادوں کی مار کھاتے ہیں، بعض اوقات لاڈلون کی ہوس کا نشانہ معصوم بچیان بن جاتی ہیں۔ یہ لوگ یہان ندی نالوں ریلوے لائنو ں کے قریب کتنی بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ کیا ان کو میانوالی کی غربت زدہ پر سکون زندگی یاد نہی آتی ہوگی۔ ان کے بچے بے شک یہان پیٹ بھر کر روٹی کھاتے ہیں مگر سینکڑون بچے اسکولوں اور مدرسوں میں بھی پڑھ رہے ہیں۔

ان کا ان کے والدین کا ٹارگٹ روشن مستقبل ہے جو ان کا پہلا حق ہے، اسی طرح آپ بھی چھوڑ کر آئے تھے۔ جو دکھ آپ لے کر آئے ہیں، وہی دکھ وہی کرب ان کی انکھوں سے جھلکتا ہے یہ محنت کش میٹھی بولنے والے ہمارے سر آنکھوں پر خدا ان کے اور ان کے بچون کے خواب پورے کرے وہ بھی پڑھ لکھ کر آپ کی طرح بڑے اور عظیم انسان بنیں، آمین ثمہ آمین، سر میں نے کوئی فلسفہ نہیں بیان کیا ہے، بہت سادہ سی بات بہت سادگی سے بیان کر دی۔ اگر کچھ ناگوار خاطر ہو تو معافی چاہتی ہوں ”بہت شکریہ میڈم پاشا۔

آپ نے ایک تلخ حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہی تو رونا ہے میڈم کہ میانوالی کے علاقے کے وسائل بروئے کار لائے جاتے تو ان کو یہی اپنے علاقے میں عزت کا روزگار مل سکتا تھا۔ پڑھ لیا آپ نے کراچی کی ایک خاتون نے میانوالی سے کراچی نقل مکانی کرنے والے غریب طبقے کے بارے میں کیا انکشاف کیے۔ ندی نالوں اور ریلوے لائنوں کے قریب یہ لوگ رہ رہے ہیں اور گھروں میں عورتیں ماسیوں کا کام کرتی ہیں۔ کہاں گئی غیرت ہماری؟

اور تو اور، یہاں اسلام آباد میں مزدوروں، چوکیداروں اور ینگ محنت کشوں میں میانوالی کے نوعمر لوگ جس کثرت سے نظر آتے ہیں پہلے یہ عالم نہیں تھا۔ ذکا اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے تسلیم کیا ہے کہ میں پہلے اپنے علاقے کے مسائل کے حوالے سے کچھ کہنے سے قاصر رہا، اس سلسلے میں عرض ہے :۔ 1970 میں ایم ایس سی کرنے کے بعد جب حالات کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا تھوڑا بہت شعور ملا تو ان مسائل کا حل نظریاتی طور بائیں بازو کی سیاست میں نظر آیا۔

وہ دور اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ ان دنوں سیاست بظاہر نظریوں کی بنیاد پر قائم تھی۔ ہمارا گروپ میانوالی میں مشہور تھا۔ پروفیسر ملک اسلم گھنجیرا، پروفیسر شمیم احمد، ظہور ملک، فضل نیازی عالم خیل، صلاح الدین سنبل، خادم قزلباش اور میں بائیں بازو اور لبرل مزاج کے حامی تھے جبکہ پروفیسر سلیم احسن، حفیظ اللہ نیازی دائیں بازو کے۔ کچھ دوست غیر سیاسی مزاج کے تھے مثلاً ناصر میر، مختار چوہدری، پیر مسعود لیکن ہم میں آپس میں بہت محبت اور پیار تھا۔

اشتراک اس پر تھا کہ میانوالی کو آگے آنا چاہیے اور یہاں بھی تاریخ کا پہیۂ چلنا چاہیے۔ جنرل ضیا کے مارشل لا کے دوران ملک اسلم اور پروفیسر شمیم کو گورنمنٹ کالج میانوالی سے جبری طور پر ٹرانسفر کر دیا گیا، وہ پھر زندگی بھر میانوالی کالج نہ لوٹ سکے۔ ظہور ملک، لیبیا سازش کیس کا شکار ہو کر آٹھ سال جیل کاٹ آیا اور میں اپنی ایک نظم کی وجہ سے کچھ دوستوں کی مہربانی سے ایک بار ہتھکڑی سے بچ گیا جبکہ میرا راولپنڈی کا ساتھی اور پرچہ خیابان کا ایڈیٹر پیارا شاعر حسن عباس رضا چند دن حوالات میں گزار آیا۔

پھر ایک وقت آیا جب پاکستان میں سرے سے نظریاتی سیاست ہی ختم ہو گئی۔ یہ دور سیاست پیسے اور دھوکے کا دور تھا جو ابھی تک چل رہا ہے۔ آج سیاست ایک پیشے کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ بہر حال مجھے ریڈیو میں پروڈیوسر ہونے کے باوجود کمپیئرنگ کا شوق اس لئے تھا کہ اس طرح میانوالی اور دیگر محروم علاقوں کے لوگوں سے میں براہ راست بات کر سکتا تھا حالانکہ میرے اکثر افسر ز شروع میں میرے اس کردار کو پسند نہیں کرتے تھے، ان ک خیال تھا مجھے پروڈیوسر بن کر ہی رہنا چاہیے، کمپیئرنگ کرنا پروڈیوسر کے لیول سے کمتر کام ہے لیکن میرا یہ دور ملازمت، مقبولیت اور اثر پذیری کے لحاظ سے، میں سمجھتا ہوں بہت کامیاب تھا اور اپنے علاقے میں مسائل کا ذکر اور لوگوں سے ان کی باتیں کرنے کی وجہ سے مجھے بہت پیار، بہت شہرت ملی، میں سمجھتا ہوں کہ اس پروگرام میں مقدور بھر میں مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ظاہر ہے وہ کوشش محدود ہی ہو سکتی تھی۔

میں اب بھی سیاسی موضوعات پر کھل کر بات نہیں کرتا۔ سیاسی میدان میں میرا تھوڑا بہت کوئی پسندیدہ تو ہو سکتا ہے، میں کسی پارٹی کا کارکن نہیں۔ مجھے اس کا شوق ہوتا تو میں پارٹی ہی جائن کر لیتا۔ سیاسی مسائل پر رائے رکھتا ہوں اور کبھی کبھار اپنی رائے کا اظہار بھی کرتا ہوں۔ بہرحال میانوالی کے حوالے سے ایک خواہش ہے کہ دیگر علاقوں کی طرح میرا آبائی علاقہ میرے لوگ سماجی بیماریوں سے محفوظ ہوں۔ میانوالی کی معاشرت جو کبھی بہت خوبصورت تھی، وہ مٹنے سے بچ جائے۔

مجھے کمی اس بات کی محسوس ہوتی ہے کہ مجھے اس خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے شہر میں ہونا چاہیے تھا جو بوجوہ ممکن نہیں۔ لیکن خواب دیکھنے پر کوئی پابندی تو نہیں۔ شہر کی ترقی کا خواب تو اب بھی دیکھتا ہوں اور اپنے خوابوں میں آپ کو بھی شامل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، بہت شکریہ۔ بہرحال مجھے خوشی ہے کہ کئی سر پھرے اب میانوالی کی محبت میں اس کی ویلفیئر کی بات کرتے ہیں۔ اور مجھے امید ہے اس طرح یہ شمع افضل عاجز اور سانجھ والے محمد اسد خان، ڈاکٹر حنیف نیازی جیسے شاعر مزاج دوستوں اور پروفیسر منور علی ملک جیسے منور لوگوں نے آگہی کی شمع جلائے رکھی اور میانوالی کے نوجوان اس کی روشنی میں آگے بڑھتے رہے تو میانوالی کے علاقے میں روشنی ضرور آئے گی۔

اور ان کوششوں میں عوام شامل نہ ہوئے تو یہ علاقہ اس طرح اجڑ جائے گا جس طرح ایٹم بم کے بعد بستیاں اجڑ جاتی ہیں۔ ہم اپنے شہر اور علاقے کے لئے کسی کا حق نہیں مارنا چاہتے لیکن سرکاری اور نیم سرکاری سطح پر یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جس بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ بھی ناقابل برداشت سمجھتے ہیں اور ان سب دکھوں کا ازالہ چاہتے ہیں۔ اللہ پاک ہمارے میانوالی کو اور اس کے باسیوں کو اپنی امان میں رکھے اور یہاں بھی زندگی کی رونقیں بحال ہوں۔ میانوالی تیری آب و ہوا کو جب ترستا ہوں میں گوگل پر تیری گلیوں کا نقشہ دیکھ لیتا ہوں

بہت شکریہ۔ ظفر خان نیازی اسلام آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).