سندھی افسانچے


تخلیق: ڈاکٹر احسان دانش
ترجمہ: شاہد حنائی (کویت)

شہر

یہ کون سا شہر ہے جس کے ہر چوک پرامن کے لیروں لیر جھنڈے پھڑپھڑا رہے ہیں۔ ہر گلی مقتل گاہ معلوم ہو رہی ہے۔ ہر چہرہ ڈرا سہما ہے۔ یہ کون سا شہر ہے؟ مَیں نے ایک ایسے شخص سے پوچھا جو کہ مجھے اس شہر میں سب سے مطمئن اور خوش نظر آرہا تھا۔

اس نے کہا، ”یہ درد نگر ہے۔ اس شہر کی شاہراہیں ہر روز خون سے غسل کرتی ہیں۔ “

مَیں نے کہا، ”ذرا وضاحت کے ساتھ بات کرو۔ “

” یہ زخمی رُوحوں اور تڑپتے جسموں کا شہر ہے۔ یہی وہ شہر ہے جہاں ہر روز خود کش بم دھماکے ہوتے ہیں اور کئی جانیں بے جان ہو جاتی ہیں۔ “ اس نے وضاحت کردی۔

مَیں نے کہا، ”یہ تو انسانیت سوز صورتِ حال ہے! گویاکہ یہاں انسان کی کھال میں بھیڑیے اور درندے رہتے ہیں۔ “

اس نے کہا، ”تم بالکل صحیح کَہ رہے ہو۔ “

مَیں نے پوچھا، ”یہ شہر جہاں زندگی اور زندگی کی رونقیں دُھوئیں میں دَب گئی ہیں، وہاں تم اتنے مطمئن اورخوش کیسے ہو؟ “

اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ”مَیں اس شہر کے ایک ایسے گوشے میں رہتا ہوں، جہاں امن و سکون ہے۔ “

مَیں نے جاننا چاہا، ”اس شہر میں ایسا کون سا گوشہ ہے؟ “

وہ کہنے لگا، ”اس جگہ کو شہرِ خموشاں کہا جاتا ہے۔ “

مَیں نے کہا، ”اچھا! پھر تم وہاں کیا کرتے ہو؟ “

اس نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ گہری کرتے ہوئے کہا، ”مَیں گورکن ہوں۔ “

ضضض

خون آشام

شام ڈھلتے ہی پرانی حویلی کے ایک اُجاڑ کمرے سے چمگادڑوں کی ایک ڈار اُڑ کر آسمان تلے پھیل گئی۔ رات کی تاریکی میں انھوں نے وہ کچھ دیکھا جو کسی کو دِن کے اُجالے میں بھی نظر نہیں آتا۔

انھوں نے ایک قبرستان میں دیکھا :

لوگ قبر کھود کر لاش نکال رہے ہیں۔

انھوں نے گلیوں میں دیکھا:

چور چوکی دار کے جلائے ہوئے الاؤ پر آگ سینک رہے ہیں۔

انھوں نے سڑکوں پر دیکھا:

انسان، انسانوں کا گلا کاٹ رہا تھا۔

انھوں نے دیہاتوں میں دیکھا:

کاریوں ٭کو کلھاڑیوں کے ساتھ مارا جا رہا تھا۔

انھوں نے شہروں میں دیکھا:

خود کُش بمبار جنت کی خواہش میں بارودی جیکٹیں پہننے کو بے تاب تھے۔

انھوں نے جنگل میں دیکھا:

شیر اور بکری ایک جگہ سو رہے تھے۔

چمگادڑیں یہ سب کچھ دیکھ چکنے کے بعد حویلی کو لوٹ آئیں۔ چمگادڑوں کا سردار حویلی کے اُونچے برج پر براجمان تھا۔ چمگادڑوں نے سردار کو آنکھوں دیکھی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ”سرکار! آج بھی ہم نے دھرتی کے باسیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ “

سردار نے پوچھا، ”اچھا! آج کیا سیکھا؟ “

ایک بوڑھی چمگادڑ نے مودبانہ لہجے میں کہا، ”یہ کہ خون پینے کے لیے چمگادڑ ہونا ضروری نہیں ہے۔ “

ضضض

سرپرست

تین بہنوں کے سرپرست اکلوتے بھائی نے طعنوں کے نشتروں سے تنگ آکراپنی ایک معصوم بہن کوکاری قرار دے کر مارڈالا۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ اس کی بقیہ دونوں بہنیں پیشہ کرنے لگی ہیں۔

ضضض

مجرم

تلخی بھرے لہجے میں تنبیہ:

”چلے جاؤ یہاں سے، میری نظروں کے سامنے سے ہٹ جاؤ، جب تک کہ میرے دل میں دہکتی غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ “

میری گزارش:

” لیکن آپ مجھ پر اس قدر خفا کیوں ہیں؟ “

بے رُخی کے ساتھ جواب :

” تم مجرم ہو، تمہارا جرم ناقابلِ معافی ہے۔ “

میرا تجسس:

” آخر مَیں نے ایسی کیا خطا کر لی ہے، جس کی معافی نہیں ہو سکتی! “

انکشاف:

” اتنے معصوم نہ بنو“ شہادت والی اُنگلی میری طرف : ”تم نے دُنیا کا سب سے سنگین ترین جُرم کیا ہے۔ “

میری حیرانی:

” دُنیا کا سب سے سنگین ترین جرم! دیکھیں آپ کو بتانا ہی پڑے گا کہ آخر مجھ سے کیا خطا سرزد ہو گئی ہے۔ “

انکشاف:

” تم نے جابر دادا کو ظالم، سفاک اور قاتل کہا ہے۔ “

میرا اصرار:

” مَیں نے کچھ غلط تو نہیں کہا! وہ واقعی خطرناک ڈکیت اور قاتل ہے۔ “

غصّے بھری دہاڑ:

” تم نرے بے وقوف اور جاہل ہو کہ تمھیں اپنے بد ترین جرم کا احساس تک نہیں ہے۔ “

ضضض

دھرتی

باز دُنیا کا چکرلگا کر اپنی تیز اور معاملہ فہم نگاہوں سے سب کچھ دیکھنے کے بعد واپس اُسی بلند چوٹی پر لوٹ آیا، جہاں اس کے بچے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک سست سے بچے نے گردن ہلاتے ہوئے پوچھا، ”بابا! آپ نے اپنی تیز نگاہوں سے دُنیا میں کیا کیا دیکھا؟ “

باز نے کہا، میری خواہش تھی کہ بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے اس جہاں کو اپنی آنکھوں سے اچھی طرح دیکھ لوں۔ میری یہ خواہش تو تکمیل ہو گئی ہے لیکن مَیں یہ دُنیا دیکھ کر خوشی کی بجائے دُکھ کی کیفیت سے دوچار ہو گیاہوں۔ ”

دُوسرا بچہ جو قدرے چست تھا، اس نے فوراً دریافت کیا، ”بابا وہ کیسے؟ “

باز نے شکستہ دلی کے ساتھ رنجیدہ لہجے میں جواب دیا، ”میرے بچو! یہ دُنیا دُور سے جتنی خوب صورت دکھائی دیتی ہے، اسے قریب سے بغور دیکھا جائے تو یہ اتنی ہی بدصورت ہے۔ “

سب سے چھوٹے بچے نے گھونسلے کے تنکوں سے گردن باہر نکال کر کہا، ”بابا! بات سمجھ میں نہیں آئی۔ “

باز نے اپنی تیز نگاہیں مغرب کی سمت دوڑائیں، جدھرسورج دھرتی سے اپنی روشنی سمیٹ کر پہاڑوں کی گود میں سورہا تھا۔

” میرے بچو! مَیں تو یہ آس لے کر گیا تھا کہ اس دُنیا کا حسن اور رنگینیاں اپنی آنکھوں میں بھر کراپنے نور کو بڑھاؤں گا، مگر جب مَیں نے اس دُنیا کی اشرف المخلوقات کو اِک دُوجے کی گردنیں اُتارتے، ایک دُوسرے پر بم پھینکتے اور خون کے دریا بہاتے دیکھا تو آنسو بہاکر رہ گیا۔ مَیں نے اپنی آنکھوں کی روشنی مدھم ہوتی محسوس کی اور سوچا، ’یہ دُنیا تو خون خوار درندوں کی جگہ ہے، یہاں انسان کس طرح رہ رہے ہیں۔ ‘

باز نے اپنے بچوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے ان سب کو نصیحت کی، ”میرے بچو! تم خوش قسمت ہو کہ دھرتی سے دُور ہو۔ تمہارے بخت بھلے ہیں کہ تمہیں بُلندیوں پر ہی شکار مل جاتا ہے۔ میرے بچو! کبھی بھول کر بھی اس زمین کے قریب نہ پھٹکنا۔ یہ دھرتی درحقیقت جہنم کا رُوپ ہے، جہاں قدم قدم پر موت استقبال کرتی ہے۔ “

ضضض

1؂ کاری: سندھ میں بدکار لڑکی کے لیے اصطلاح رائج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).