محبت کی نفسیات


دنیا کا زیادہ تر ادب محبت کی کہانیوں، نظموں، گیتوں پہ مشتمل ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جس پہ پہروں بات کی جاسکتی ہے۔ محبت کیا ہے؟ کیوں ہوتی ہے؟ کیسے ہوتی ہے؟ ان سوالوں کے جوابات اکشر لوگ قصے کہانیوں، شعرا کے کلام یا دنیا کے مختلف مذاہب کی کتابوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ محبت کے اپنے اپنے تجربات پہ پہروں مباحث ہوتے رہتے ہیں۔ مگر اتنا زیر بحث رہنے کے باوجود محبت کی سائنس سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور اسے ایک مافوق الفطرت تجربے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ :

کسی کا حل تو کسی کا مسئلہ ہے
محبت اپنا اپنا تجربہ ہے

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محبت کا سائنسی تجزیہ ممکن ہے؟ بقول ایک مشہور ماہر نفسیات ایرک فرام ایسا بالکل ممکن ہے۔ ایرک فرام نے اس موضوع پر آرٹ آف لوّنگ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو محبت کی سائنس سمجھنے کی جستجو رکھنے والوں کے لئے ایک رہنما کتاب ثابت ہو سکتی ہے۔ زیر نظر مضمون ایرک فرام کی اسی کتاب سے لی گئی دانش پر مبنی ہے۔ چونکہ اس کتاب میں محبت کے مختلف پہلووں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے جسے کسی ایک مضمون میں سمونا ممکن نہیں تھا اس لئے آج ہم صرف محبت کے ایک پہلو پر بات کریں گے اور باقی موضوعات آئندہ مضامین میں زیر بحث لانے کی کوشش کریں گے۔

آج کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم محبت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ اس سوال کا ایک فوری جواب تو آ جاتا ہے جی بالکل۔ ہم سب محبت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ایک لمحے کو ٹھہریے اور خود سے دوبارہ یہی سوال پوچھیے کہ کیا آپ محبت کرنا چاہتے ہیں یا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ سے محبت کی جائے؟ اپنے دل پہ ہاتھ رکھیے اور آنکھیں بند کر کے اپنے سچ کو تلاش کریں۔ سچ چیخ چیخ کر بولے گا نہیں ہم محبت کرنے سے زیادہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم سے محبت کی جائے۔

اپنی زندگی کے بارے میں سوچئے۔ یہ جو آپ روز صبح اٹھ کر بنتے سنورتے ہیں، تو آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر کیا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ لباس زیب تن کرتے وقت آپ کے ذہن میں کیا خیال آ رہا ہوتا ہے۔ مخصوص سماجی رویے اپناتے، گفتگو میں شائستگی لاتے وقت، خاص چال ڈھال اختیار کرتے سمے آپ لاشعوری طور پر خود کو دوسروں کی نظر سے ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کیا آپ ویسا ہی نہیں بننا چاہ رہے ہوتے جو دوسروں کو پسند آئے؟ کیا آپ نہیں چاہ رہے ہوتے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں آپ کو قبولیت حاصل ہو؟

کیا محبت کرنے سے زیادہ محبت کیے جانے کا احساس خوبصورت نہیں ہوتا؟ کیا جب ہم والدین ہونے کے ناتے اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کر رہے ہوتے ہیں اس کے پیچھے ان کی محبت جیتنے کا جذبہ ہی کارفرما نہیں ہوتا؟ کیا ہم اولاد ہونے کے ناتے جب اپنے والدین سے لپٹ رہے ہوتے ہیں تو کیا ان کی محبت حاصل کرنے کی تمنا ہی نہیں ہوتی؟ کیا جب ہم اپنے محبوب کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو اصل میں ہم اس کی اپنے لئے محبت کے طلبگار نہیں ہوتے؟ ان سوالوں پہ ذرا سا سوچئے تو آپ خود سے سچ بولنے کے قابل ہو جائیں گے کہ آپ کی اصل تمنا محبت کرنے کی نہیں چاہے جانے کی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے اس چاہے جانے کے پیچھے اصل محرک ہے کیا؟ اس جذبے کی شدت کی وجہ کیا ہے؟ جو ہم اپنی زندگی کے روز و شب اس کی بھول بھلیوں میں گزار دیتے ہیں۔ محبت جیتنے کے لیے ہم پیسہ کماتے ہیں، مقبول فیشن اپناتے ہیں، خود پہ جبر کر کے گفتگو میں شائستگی لانے کی کوشش کرتے ہیں، گانے گاتے ہیں، مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ مقبولیت و شہرت کی تمنا لئے در در کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ یہ سب محرکات محبت کے ہیں مگر محبت کا محرک کیا ہے؟
آپ فی الحال اس سوال پہ سوچئے۔ موضوع کی طوالت کے سبب ہم اگلے مضمون میں اس سوال کا جواب لے کر حاضر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).