ہمیں ابوالکلام آزاد کیوں نہیں مل سکا؟


واٹس ایپ پہ پیغامات آنے کی گھنٹیاں بجی جا رہی تھیں۔ آخر مجبور ہو کے دیکھنا ہی پڑا۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے گروپ میں خوب شور و غوغا تھا۔ ہندوستانی ساتھی جو کہ اکثریت میں ہیں، انڈیا میں نیشنل ایجوکیشن ڈے منانے کے تہنیتی پیغامات بھیج رہے تھے اور بہت پرجوش تھے۔ یونہی نظر پڑی تو پیغامات کےساتھ ایک باریش صورت نظر آئی اور ساتھ میں جنم دن کی مبارک باد بھی۔ پڑھنے پہ معلوم ہوا کہ ان صاحب کی علمی و قومی خدمات کے صلے میں ان کے یوم پیدائش کو انڈین حکومت نے نیشنل ایجوکیشن ڈے میں تبدیل کر رکھا ہے اور ہر برس گیارہ نومبر کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس شخصیت کو قومی سطح پہ خراج تحسین اور ان کے نام کو ہمیشہ کے لئے دوام بخشنے کی یہ ایک کوشش ہے۔

کون تھی وہ شخصیت؟

گاندھی نے کہا تھا “وہ سقراط اور افلاطون کا ہم پلہ تھا”

وہ جو مکہ میں علم دوست گھرانے میں پیدا ہوا۔ دین میں فضل وکمال حاصل کیا، مذہبی کتابیں تصنیف کرنے کے ساتھ ساتھ غبار خاطر جیسے ادبی شاہ پارے کا مصنف ٹھہرا۔ جس کی تصنیف India wins freedom ہندوستان میں بیسویں صدی کے پہلے نصف ھصے کی مستند تاریک شمار ہوتی ہے۔ جن کی بابصیرت رہنمائی میں ڈاکٹر تارا چند کی زیر صدارت فاضل علما کی ایک کمیٹی نے چار جلدوں میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی مستند تاریخ مرتب کی۔

سیاست جن کا اوڑھنا بچھونا بنی، جنہوں نے متحده ہندستان کی حمایت کی اور کانگریس کے کم عمر ترین صدر بنے۔ وہ علم و دانش کی ایک تصویر جنہوں نے نےتعلیم کو برصغیر کے لوگوں کے لئے ایک لازم زینہ قرار دیا اور عورت، پسماندہ اور غریب اس دوڑ میں اولیت کے حقدار۔ وہ جو تقسیم کے بعد ہندوستان کو ترقی کی شاہراہ پہ گامزن کرنے کا موجب بنے۔

یہ تھے مولانا محی الدین ابوالکلام آزاد!

عالم دین، صحافی، سیاست دان، ماہر تعلیم!

والدین نے دین کی تعلیم سے سرفراز کرا کے عالم دین بنانا چاہا اور عالم ہوئے بھی لیکن پرجوش طبعیت، حق کہنے کی چاہت اور برصغیر کے بدلتے حالات انہیں صحافت کی طرف لے گئے۔ الہلال اور البلاغ جیسے رسالے ان کا ہتھیار بنے۔ یہی حق گوئی و بےباکی انہیں برصغیر کی سیاست میں فعال کر گئی۔ جیلیں کاٹیں، قید وبند کی صعوبتیں سہیں، کانگرس کے اہم رہنما ٹھہرے اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی بھی۔

تقسیم کے بعد نہرو کے دست راست ٹھہرے، لوک سبھا سے دو دفعہ منتخب ہوئے۔ مولانا کو وزیر تعلیم کا قلمدان سونپا گیا، جس کی ذمہ داریاں مولانا نے گیارہ برس تک نباہیں۔

مولانا اپنے فہم و ذکا کی دولت سے ہندوستان کو دو قیمتی ادارے عطا کر گئےجنہوں نے زمینی منظر ہی تبدیل کر دیا، انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اوریونیورسٹی گرانٹس کمیشن۔

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی 1951 میں معرض وجود میں آیا اور اسے دنیا کی پہلے نمبر کی یونیورسٹی میساچوسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(MIT) کی طرز پہ چلانےکا سوچا گیا۔

نہرو نے افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈیا کی آرزوؤں کا نشان ہے اور انڈیا کا مستقبل بھی۔ انڈین پارلیمنٹ نے 1956 میں اس ادارے کو ایک ایکٹ کے ذریعے قومی مفاد کا ادارہ قرار دیا۔ ابتدا میں ادارے کی چار شاخیں انڈیا کےمختلف حصوں میں بنائی گئیں جن کا مقصد توازن کی بنیاد پہ تعلیم کی فراہمی تھی۔

آج اس ادارے کی 23 شاخیں پورے انڈیا میں کام کر رہی ہیں اور فارغ التحصیل افراد پوری دنیا میں اپنا نام منوائے ہوئے ہیں۔ گوگل کے سربراہ سندرپچائی کا نام کون نہیں جانتا۔

کیا ہی حیرت کا مقام ہے!

دنیائے عالم میں کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی میں اپنا نام کمانے والے، بڑے بڑےادارے قائم کرنے والے، بین الاقومی اداروں کی سربراہی کرنے والے، انڈیا کو زرمبادلہ کما کے دینے والے ایک مسلمان عالم کی خدمات کو آج بھی نہیں بھولتے۔ اس کے جنم دن کو قومی تعلیمی دن قرار دیتے نہیں ہچکچاتے۔ اس کا نام ان کی آنکھوں میں روشنی اور زبان میں شیرینی گھول دیتا ہے۔

وہ آزاد کو اپنا مسیحا قرار دیتے ہوئے اس بات کی قطعاً پروا نہیں کرتے کہ آزاد مسلمان تھے۔ آزاد کی قبر پہ مقبرہ بناتے ہوئے صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ آج جو دنیا میں علم وہنر کے فاتح بنے بیٹھے ہیں، اس کی بنیاد اس مرد حق نے رکھی تھی اور اس کے مذہب سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔

دل چاہتا ہے کہ کچھ سوال پوچھوں!

مولانا آزاد جیسے متبحر عالم دین نے دنیاوی علوم کے ادارے کی بنیاد کیوں رکھی؟

مولانا آزاد جیسے جید عالم نے عورت کی تعلیم اور کام کو اہم کیوں قرار دیا؟

مولانا آزاد، عربی اور فارسی کے عالم، قران کی تفسیر قلمبند کرنے والے نے دینی مدرسہ قائم کرنے کی بجائے عہد حاضر کے ساتھ قدم ملانے کا کیسے سوچا؟

کیا تقسیم کے بعد نوزائیدہ پاکستان کے پاس ایک بھی صاحب نظر نہیں تھا جو پاکستان کے مسقبل کا تعین کرتا؟

کیا تقسیم کے بعد جو صاحبان اقتدار ریشہ دوانیوں میں وقت گزار رہے تھے کیا وہ مسقبل میں جھانکنے کی اہلیت رکھتے تھے؟

ہمارے ہاں تعلیم کا جو حشر کیا گیا، کیا کسی نے اس کے متعلق سوچنے کی زحمت کی؟

ہم بائیس کروڑ عوام کا کیا قصور ہے کہ ہمیں ابوالکلام آزاد نہیں ملا؟

آج کے علماء نے جو دینی مدارس کی بھیڑچال شروع کی ہے کیا وہ آزاد کےمتعلق جانتے ہیں؟ اور ان کی نظر میں آزاد نے دین کی خدمت کی یا دین سے انحراف کہ مسلم اور غیر مسلم کی تمیز روا رکھے بغیر اپنی قوم کو ترقی کے راستے پہ گامزن کر گئے؟

بھارت کے شہریوں کا آج علم کی دنیا میں جو مقام ہے اور اس میں آزاد کا جو حصہ ہے اس کے بعد تو ہمیں مشکل ہی لگتا ہے کہ وہ روز حساب داور حشر کی نگاہ میں پسندیدہ قرار پائیں۔

کیا آپ ان سوالوں کے جواب دریافت کر کے ہماری قوم کے ایک خود ساختہ بلبلے میں رہنے کی حقیقت دریافت کریں گے؟

یا پھر ہماری آزمودہ “مٹی پاؤ تے ڈنگ ٹپاؤ !” پالیسی ہی ہمارے لئے مشعل راہ رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).