سیلفیاں رے سیلفیاں


آج ہر شخص اپنی مٹھی میں پوری دنیا لیے گھوم رہا ہے۔ جس کو دیکھو وہ اپنے قیمتی موبائل فون پر اترا رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے بہت سے فیوض و برکات ہیں اور اگر ہم اس کا بہتر استعمال کریں تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اچھا دوسرا برا۔ اب یہ آپ کی صوابدید پر ہے کہ آپ اس کے کس پہلو کو استعمال کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں موبائل فونز کی بہ آسانی دستیابی، ارزاں انٹر نیٹ پیکج اور لوگوں میں ہر قسم کے سوشل میڈیا کے بے تحاشا استعمال سے تصویریں کھینچنا اور خاص کر سیلفیاں لینا اب کافی عام ہوگیا ہے۔ بچہ ہو، جوان ہو یا بزرگ، مرد ہو یا خاتون سبھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔ سوشل میڈیا ایک علیحدہ رنگین دنیا ہے، جہاں آکر لوگ اپنی تصویریں لگا کر نفسیاتی تسکین کے ساتھ ساتھ لوگوں سے داد بھی وصول کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور موبائل فونز کے امتزاج سے لوگوں اورخاص کر نئی نسل میں جو سماجی، جذباتی اور نفسیاتی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں وہ واقعی تشویشناک ہیں۔

ہم اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ دن کی روشنی میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ ۔ لوگ اب اپنی ذات میں اتنے محو ہوتے جارہے ہیں کہ وہ اپنے ماحول سے یکسر عاری ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر کوئی موبائل فونز کے ساتھ چمٹے ہوئے گلی محلے، گھر، دفتر، بازار حتیٰ کہ دسترخوان تک کی سیلفی بنارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا ایک سیلفستان بنکر رہ گئی ہے۔

ایک ماہر نفسیات کے مطابق، جو لوگ نرگسیت کے شکار ہوتے ہیں، وہ سیلفی کے جنون میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں یا جن لوگوں کی خودتوقیری کم ہوتی ہے، وہ سیلفی کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ کبھی بڑے ہوٹل چلے جائیں تو سیلفی لے کرسوشل میڈیا پر شیئر کریں گے۔ لیکن، جو لوگ آئے دن ان ہوٹلوں میں آتے جاتے رہتے ہیں، کیا وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے خاص کر اُن لوگوں کے لئے جو اپنے کھانوں کی، مختلف لوگوں سے ملاقات کی، مختلف پروگراموں کی سیلفیاں شیئر کرتے پھرتے ہیں۔

یہ سیلفیاں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ آپ اپنے مقام سے بڑھ کر کچھ کھارہے، کسی سے مل رہے یا کسی پروگرام میں شرکت کررہے ہیں۔ ہر وقت سیلفی بنانے اور لگانے والے جتنا زیادہ خود کو پُراعتماد ظاہر کررہے ہیں، دراصل یہ اتنے ہی اندر سے خود کو کم تر محسوس کرنے والے لوگ ہیں۔ درحقیقت، یہ لوگ اپنے اندر کے کھوکھلے پن کو اس انداز سے ظاہر کالبادہ اڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سیلفیاں اور تصاویر شیئر کرنا اس کا آسان ترین اور سستا ترین طریقہ ہے۔

یہ سیلفی بنانے کا عمل کوئی نیا نہیں بلکہ یہ عمل اس وقت شروع ہوا جب امریکن فوٹو گرافر روبرٹ کورنیئلسن نے 1839 کو اپنی تصویر بنائی، اس کے بعد 1900 میں 13 سالہ روسی لڑکی نکو لؤینا نے شیشہ کی مدد سے تصویر کھینچی جس سے کیمرہ کے سامنے سے اور شیشے کی مدد سیلفی کا دور آگے چل نکلا۔ اور اسی روش پہ چلتے ہوئے آج تقریبا ہر شخص میں سیلفیاں بنانے اور اسے سوشل میڈیا پر چڑھانے کا نشہ عام اور سرشام ملتا ہے، چاہے وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں یا وہ سلیبرٹی، اعلیٰ عہدیدار ہو حتیٰ کہ وزیراعظم، صدور میں بھی سیلفیاں بنانے کا رواج یکساں ملتا ہے۔

سیلفیاں بنانا کوئی عیب یا بُری بات نہیں۔ لیکن جو لوگ صبح اٹھتے ہی لگاتار سیلفیاں بنانے کا عمل شروع کرتے ہیں وہ تشویسناک ہے، بلکہ بقول ماہرین ِ نفسیات کہ لوگ حد سے زیادہ اور مسلسل سیلفیاں بناتے ہیں، ان ہر تین میں سے دو افراد ”بی ڈی ڈی“ یعنی ( باڈی ڈسمورفک ڈس آرڈر) کے شکار ہوتے ہیں۔ اس نفسیاتی بیماری کے باعث آدمی اپنے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہے اور اس بارے میں پریشان رہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ کیوں کر بہتر اور نمایاں لگا جائے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ حد سے زیادہ سیلفیاں بنانا فیشن یا رواج نہیں، آپ کے بیمار ذہن کی علامت ہوسکتی ہے۔ سیلفی کی عادت درحقیقت انسان کے اندر چھپی خودپرستی کی عادت کو ظاہر کرتا ہے۔ کئی ملکوں میں حکومتیں اور پبلک سیکیوریٹی ادارے سیلفی کے جنون کو عوامی سلامتی کے لیے سنجیدہ نوعیت کا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔

موبائل رکھنے والے کی خواہش محض تصویر اتارنا نہیں رہ گیا بلکہ ایسی تصویر جس میں وہ خود بھی نظر آئے۔ قبرستانوں میں، حتیٰ کے مردے کے ساتھ، جنازے کے ساتھ سیلفی بنانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ خوشی کے موقع کی تو بات ہی الگ ہے۔ سیلفیوں کی بدولت کسی کی عزت، شہرت پروان چڑھ رہی ہے اور اسی کی وجہ سے عزت کی نیلامی بھی دیکھنے کو ملتی ہے، مفتی عبدالقوی نے انکشاف کیا ہے کہ قندیل بلوچ سیلفی کے بعد سے میرے ساتھ 70 ہزار سیلفیاں بن چکیں۔ بعض اوقات سیلفیوں کا جنون موت کا سبب بھی بنتا ہے۔ سیلفی ضرور لیں لیکن کچھ احتیاط سے، اپنی اہمیت، اپنی عزت کو جانچ کرکہ کہیں آپ کی یہ سیلفی موت کا سودا تو نہیں بنے گی؟ یا یہ عمل آپ کی اور ہمارے معاشرے کی عزت و وقار کو نقصان تونہیں پہنچائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).