شکریہ نواز شریف


یا للعجب إ یہ وہی پاکستان ہے جس کی عدالتوں میں بیک وقت دو سپہ سالاروں کی قسمتوں کا فیصلہ ہونے والا ہے؟ یہ وہی پاکستان ہے جس کے ایک طاقتور ترین اور ظالم آمر مطلق نے رعونت و تکبر سے کہا تھا کہ آئین کو کون پوچھتا ہے یہ تو چند کاغذوں کا پلندہ ہے، میں جسے جس وقت چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ جو کچھ اس نے ہمارے مفاد پرست اور مرعوب سیاستدانوں کے بارے میں کہا تھا وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ یہ وہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں جنرل یحٰی نے ملک دو لخت کرنے کے بعد کہا تھا کہ میں نے کسی کی کھوتی کو ہاتھ لگایا ہے جو عوام مجھ سے نالاں ہو گی؟

یہ وہی اسلام کا قلعہ ہے کہ جہاں ایک ڈکٹیٹر نے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم کے خلاف قتل کے الزام کے ایک پرانے مقدمے کو کھلوا کر اسے پھانسی چڑھا دیا تھا۔ یہ وہی ایٹمی طاقت ہے جہاں ایک سخت گیر جنرل نے عدلیہ کے سیکڑوں ججز کو نظر بند کیا تھا اور کراچی میں اس ظلم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران حکومتی مشینری کے ذریعے بیسیوں شہریوں کو سر عام قتل کروانے کے بعد اسلام آباد میں مکے لہراتے ہوئے کہا تھا کہ دیکھی ہماری طاقت؟

یہ وہی مارشل لاٶں کا مارا حرماں بخت ملک ہے جس کی قبائے جہموریت و ردائے انسانیت جگہ جگہ آمرانہ کھونچوں سے ادھڑی ہوئی ہے۔ یہ وہی ملک عزیز ہے جس کی فضاٶں میں آمروں کے ظلم و ستم کی داستانیں سانس لے رہی ہیں۔ یہ وہی سر زمین ہے جسے ایک عظیم سیاستدان اور ممتاز قانون دان نے سیاسی و قانونی جنگ کے ذریعے استعماری طاقتوں سے آزاد کروایا تھا۔ جس نے قانون کی طاقت کا سنہری اصول دیا تھا نہ کہ طاقت کے قانون کا اندھا بہرہ جنگل کا قانون۔

آج اسی ملک کی عدالتوں میں عدلیہ کے جرات مند جج صاحبان طاقت و جبر کے سرچشموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آئین و قانون کی مسلسل بے تو قیری کا حساب مانگ رہے ہیں۔ بار بار دیکھی اور ان دیکھی آمریت کے نرغے میں تڑپتی سسکتی مظلوم جمہوریت کی پامالی کا جواب مانگ رہے ہیں۔ آج واضح طور پر ملک دو کیمپوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ظاہر ہونے والی مبہم اور موہوم تقسیم کی لکیر اب بالکل واضح اور نمایاں ہو چکی ہے۔

ایک طرف آمریت کے دیوانے اور ڈنڈے کے زور پر ملکی نظام چلانے کا مطالبہ کرنے والوں کی دم توڑتی اور شکست خوردہ آوازویں ہیں تو دوسری طرف دیوانہ وار جمہوریت اور ووٹ کو عزت دینے کا نعرہٕ مستانہ بلند کر کے میدان عمل میں انجام سے بے روا ہو کر کودنے والے سر فروشوں کی للکار ہے۔ ابھی وزیر اعظم کی تقریر کی بازگشت فضاٶں میں ہی تھی کہ عدالت میں طاقتور اور کمزور کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیاز کو ختم کیا جانا چاہیے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک کے طاقتور ترین سپہ سالار کی مدت ملازمت میں کی جانے والی توسیع کو خلاف قانون و ضابطہ قرار دے کر اسے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔

کیا طرفہ تماشا ہے کہ تنی ہوئی گردنوں اور کشیدہ سر والے کمر خمیدہ و دست بستہ معزز عدلیہ میں حراساں پھر رہے ہیں۔ ان کیسز کے حوالے سے آنے والے ممکنہ فیصلوں سے قطع نظر یہ امر واقعہ ہے کہ ہماری تابع فرمان اور مرنجاں مرنج عدلیہ نے سر فروشی اور جاں بازی کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک کیس کا فیصلہ اگرچہ بظاہر سابق آمر کے حق میں آیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ابھی سنگین غداری کے کیس سے جان نہیں چھوٹی بلکہ مقدمے کی تلوار کچھ اور آبدار ہو کر اس کے سر پر لٹکنے لگی ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں بھی شاید کوئی بڑا عدالتی معرکہ نہ مارا جائے بلکہ اس حوالے سے عدلیہ کچھ اصول و ضوابط اور جزئیات طے کر کے کچھ شرائط کے ساتھ توسیع کی اجازت دے سکتی ہے مگر آج ایک بات ضرور طے ہے کہ مستقبل میں قومی مفاد اور ملکی دفا ع کے نام پر بندر بانٹ کا قبیح سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ آج سیاسی پارٹیوں میں پیدا ہونے والا جمہوری شعور، عدلیہ کو ملنے والا بے مثال و باکمال حوصلہ، میڈیا کے محدود حلقے میں پیدا ہونے والا احساس ذمہ داری و حق گوئی کا جذبہ اور عوامی سطح پر بیدار ہونے والی جمہوری سوچ;سب کچھ میاں نواز شریف کی جمہوریت کی بحالی کے لیے کی جانے والی بے باک جدوجہد کا مرہون منت ہے، جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر ہمیں ایک روشن سمت دی۔ اس پر ساری قوم یہی کہہ سکتی ہے کہ شکریہ نواز شریف۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).