کالم نگارکن موضوعات پر لکھیں؟ ناقابلِ اشاعت کالم


کبھی نئے لکھنے والے پوچھا کرتے تھے کہ کس موضوع پر گوہر افشانی کی جائے مگر اب تو صورتحال یہ ہے کہ منجھے ہوئے کہنہ مشق صحافی بھی طے نہیں کر پاتے کہ کون سا موضوع بے ضرر اور ہومیو پیتھک ہے۔ بظاہر بہت دھیما اور غیر مضر محسوس ہونے والے موضوع پرنہایت احتیاط سے الفاظ اور تراکیب کا استعمال کرنے کے بعد بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ جانے انجانے میں کب کوئی بات سنسرشپ کی بارودی سرنگ سے جاٹکرائے اور کالم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو جائے۔

بعض اوقات تو حالات اس قدر ناگوار صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ ڈکٹیٹرشپ کا زمانہ بہت بھلا محسوس ہوتا ہے اور ٹرکوں کے پیچھے لکھا وہ جملہ یاد آتا ہے ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“۔ آمریت کا دور اس لئے اچھا تھا کہ سب کو اپنی حدود و قیود کا علم تھا، ماسوائے چند نوگو ایریاز کے اظہار رائے کی آزادی تھی اور بنیادی انسانی حقوق جیسی غلط فہمیاں نہ ہونے سے کسی قسم کی غیر متوقع صورتحال پیش نہیں آیا کرتی تھی۔ چند برس قبل جب میڈیا کو نکیل ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا تو معاملہ چند شخصیات اور اداروں تک ہی محدود تھا مگر رفتہ رفتہ سنسرشپ کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا اور اب تو یہ طے کرنا دشوار ہوگیا ہے کہ کس قسم کے موضوعات اس کی زد میں نہیں آتے۔

مجھے شیکسپیئر کی اس بات سے مکمل طور پر اتفاق رہا ہے کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب فنکار ہیں۔ صحافی بھی ایک طرح کا آرٹسٹ ہوتا ہے اور اس کا کام نامساعد حالات کے باوجود اظہار کے راستے تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت استعاروں، تلمیحات اور تمثیلات سے کام لینا شروع کیا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مگر سپیروں کو اشاروں کنایوں میں بات کر نا بھی اچھا نہ لگا اور اب یہ کیفیت ہے کہ لکھنا محال ہوگیا ہے۔

سیانے صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب منہ زورآندھیاں چل رہی ہوں تو وہی شجر بچ جاتے ہیں تو مصلحت کے تحت سرجھکا لیتے ہیں۔ یہی بات انگریزی ادب سے دلچسپی رکھنے والے اپنے انداز میں یوں کہتے ہیں کہ Live to fight another day یعنی لڑ کر مر جانے سے بہتر ہے کہ کسی اور دن لڑنے کے لئے زندہ رہو۔ میں نے سوچا کیوں نہ اس حوالے سے برین اسٹارمنگ کی جائے کہ متبادل موضوعات کیا ہو سکتے ہیں۔ وہ کون سے ایشوز ہیں جن پر لکھ کریہ مشکل وقت پاس کیا جا سکتا ہے۔ بہت غور وتامل کے بعد میں نے ایسے ممکنہ موضوعات کی فہرست تیار کی ہے جو نسبتاً محفوظ ہیں اور ان پر رائے زنی کرنے سے کالم کے شہید ہونے کاخطرہ نہیں۔

1۔ دنیا بھر کے موسمی حالات میں تغیر و تبدل آرہا ہے۔ عالمی حدت کے باعث گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ بتدریج سردیاں سکڑتی جا رہی ہیں جبکہ گرمیاں پھیلتی جا رہی ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو موسمیاتی تبدیلیوں پر کالم لکھ سکتے ہیں۔ اسموگ جیسے مسائل بھی انہی موضوعات میں سموئے جا سکتے ہیں۔ مگر اسموگ کے اسباب اور وجوہات کا ذکر تے وقت یہ ضرور بتائیں کہ ازلی دشمن بھارت واہگہ کے راستے دراندازی کرکے اسموگ بھیج رہا ہے اور ساتھ ہی حکومت وقت کی شجر کاری پالیسی کو خراج تحسین پیش کرکے اپنا قومی فریضہ ادا کرنا نہ بھولیں۔

2۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں ٹماٹر کا بحران ہے، اسے عوامی نوعیت کے اہم ترین معاملے کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ کھجور کی طرح ٹماٹر کا بھی کوئی مسلک یا مذہب نہیں ہوتا اس لئے ٹماٹر کہیں سے بھی درآمد کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت وسعت کا حامل موضوع ہے اس پر بات کرتے وقت آلو، پیاز، لہسن، ادرک، شلجم، بینگن سمیت تمام زرعی اجناس سے متعلق بات کی جاسکتی ہے، کسانوں کے مسائل کو اجاگر کیا جاسکتا ہے، گھروں میں چھتوں پر سبزیاں اُگانے کی افادیت بیان کی جا سکتی ہے، سبزیوں میں زہریلے اور آلودہ پانی کے اثرات سے آگاہ کیا جا سکتا ہے، فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں، سنڈیوں اور حشرات سے ہو رہے نقصانات پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے لیکن اس موضوع کو ضبط تحریر میں لاتے وقت ایک احتیاط لازم ہے کہ کہیں محکمہ زراعت کا لفظ استعمال نہ کریں کیونکہ بعض ناہنجار لوگوں نے اس لفظ کو بدنام کردیا ہے۔

3۔ آپ سماجی معاملات پر بلاجھجھک لکھ سکتے ہیں۔ معاشرتی برائیوں کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے میں رشوت خوری کا کلچر کس طرح پروان چڑھ رہا ہے، گداگروں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے، لوگوں میں برداشت کا مادہ کیوں کم ہوتا جارہا ہے، جھوٹ بولنے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں، طلاق اور خلع کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے، جہیز کتنی بری لعنت ہے، شادیوں پر کس قدر فضول خرچی ہوتی ہے، گھروں میں کام کر رہے ملازمین سے کتنا براسلوک کیا جاتا ہے، آپ ان موضوعات پر کالم لکھ کر نہ صرف سماجی خدمت کر یں گے بلکہ آپ کاکالم سنسرشپ کی زد میں آنے سے بھی بچ جائے گا۔

4۔ اگر آپ کو سیاست کا لپکا ہے اور سماجی موضوعات کے بجائے سیاسی معاملات پر ہی تجزیہ نگاری کرنا چاہتے ہیں تو پھر نئے پاکستان کے دودھ میں دھلے سیاستدانوں کے بجائے پرانے پاکستان کے گناہوں میں لتھڑے، کرپٹ اور بے ایمان سیاستدانوں کی گوشمالی کریں۔ پرانی حکومتوں کے کرتوت بیان کریں، قومی خزانہ لوٹنے والوں کے قصے کہانیاں مرچ مصالحہ لگا کر بیان کریں، آپ کو نہ صرف کھڑکی توڑ مقبولیت ملے گی بلکہ آپ کا کالم سپر سونک اسپیڈ سے شائع ہوگا۔

5۔ اگر آپ کو ان مقامی موضوعات سے دلچسپی نہیں اور آپ عالمی حالات کا احاطہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہود و ہنود کی سازشوں کا پردہ چاک کریں، امریکہ کی استعماریت پر بات کریں، سرمایہ دارانہ نظام کو جی بھر کر گالیاں دیں، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور عالمی طاقتوں کی خود غرضانہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنائیں، خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے عالمی ایجنڈے کی اصل کہانی بیان کریں اور پھر دیکھیں کس طرح آپ دیکھتے ہی دیکھتے شہرت و ناموری کی بلندیوں کو چھوتے ہیں۔ آج کے لئے اتنا ہی، اگر فرصت ملی تو پھر کبھی نئے موضوعات پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri