آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا مقدمہ: جسٹس کھوسہ کی عدالت میں کیا ہوا؟


فروغ نسیم

لابی میں بھی بڑی تعداد میں وکلا اور صحافی عدالت لگنے کا انتظار کر رہے تھے

جمعرات کی صبح سپریم کورٹ کے باہر غیر معمولی بھیڑ تھی۔ ماضی میں ایسا ہجوم تبھی دیکھنے کو ملا جب عدالت میں وزیراعظم کو طلب کیا گیا ہو۔

سماعت کے آغاز سے کہیں پہلے عدالتِ عظمیٰ کے باہر پہنچا تو جو پہلا چیلنج درپیش تھا وہ پارکنگ کی جگہ تلاش کرنا تھا اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے میں عوامی دلچسپی کا نتیجہ ایک کلومیٹر دور پارکنگ کی جگہ ملنے کی صورت میں برآمد ہوا۔

سپریم کورٹ کی عمارت تک پہنچا تو وہاں صحافیوں کے ہاتھوں میں موجود کیمرے جیسے ہر آنے والے کے قدم شمار کر رہے تھے۔ یو ٹیوب چینل چلانے والے صحافی ٹی وی چینلز سے بھی پہلے اپنے ناظرین کو پل پل کی خبر دینے میں مصروف نظر آئے۔

کیمروں اور وکلا کی قطاروں سے بچتے بچاتے سپریم کورٹ کے سب سے کشادہ کمرہ نمبر ایک میں پہنچا تو وہاں بھی تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور کمرہ عدالت کی گیلری جو ججوں کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہوتی ہے وہ بھی کھچاکھچ بھری تھی۔

باہر لابی میں بھی بڑی تعداد میں وکلا اور صحافی عدالت لگنے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہیں صحافیوں کے ہتھے فروغ نسیم چڑھے جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وکالت کرنے کے لیے وزیرِ قانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے۔

ان سے پہلا سوال تھا کہ کیا ان کے موکل آج خود پیش ہورہے ہیں اور یہ کہ انھوں نے آرمی چیف سے کتنی فیس وصول کی ہے۔

ان سوالات سے بچ کر فروغ نسیم کمرۂ عدالت میں پہنچے اور اٹارنی جنرل کے ساتھ والی نشست سنبھال کر ججوں کے سوالات کے نوٹس لینا شروع کر دیے۔

باجوہ

چیف جسٹس آصف کھوسہ نے عدالتی کارروائی کے آغاز میں اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم نے کچھ فوری نوعیت کے مقدمات پر سماعت کرنی ہے، لوگ جیلوں میں پڑے ہیں۔ اس کیس میں 15 منٹ کا وقفہ کر لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل واپس جانے لگے تو چیف جسٹس نے کہا اتنی دیر میں آپ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع جبکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا ریکارڈ ہمارے سامنے پیش کردیں۔ جن سے ہمیں اندازہ ہو گا کہ وہ کن شرائط پر سب ہوا۔

چیف جسٹس نے بلند آواز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ ’کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتا تو پھر راحیل شریف پینشن کیسے لے رہے ہیں۔‘

وقفے کے بعد جب اٹارنی جنرل انور منصور نے آرمی چیف کی توسیع سے متعلق نیا نوٹیفیکیشن عدالت کے سامنے پیش کیا تو عدالت نے اس میں کچھ نکات کی نشاندہی کی اور کہا کہ ’ہم تو سمجھے تھے کہ اتنے جید لوگ مل کر اتنے طویل اجلاسوں میں غور کریں گے تو کوئی خامی نہیں چھوڑیں گے۔‘

عدالت نے اٹارنی جنرل انور منصور سے کہا کہ اس سمری میں ہمارا ’ایڈوائزری رول‘ کا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایف آئی آر میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کا نام درج کر لیتا ہے۔

احتجاج

عدالت کے احاطے میں فوج کی حمایت میں بھی ایک شخص مظاہرہ کرتا نظر آیا

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں اپنے کاموں کے ساتھ نتھی نہ کریں، ہمارا آپ کی سمریوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

سماعت کے دوران سابق وزیر قانون فروغ نسیم اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر آ کر مشورے دیتے بھی نظر آئے۔

جسٹس کھوسہ نے اپنے ہاتھ میں آرمی ریگولیشنز کی کتاب ہاتھ میں لہراتے ہوئے کہا کہ اس پر لکھا ہے کہ کوئی غیر متعلقہ شخص اس کو پڑھ نہیں سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی قانونی جواز کے بغیر ہی توسیع کا معاملہ چلتا رہا، بس جس نے جو لکھ دیا۔

دوسرے دن جنرل اشفاق کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دینے والے اٹارنی جنرل کے لیے تیسرا دن نسبتاً آسان رہا اور ان کے اور بینچ کے درمیان اہم ایشوز پر اتفاق دیکھنے میں آیا۔

انھوں نے عدالت سے یہ استدعا کی کہ قانونی سقم کے باوجود آرمی چیف کے معاملے میں ریلیف دیا جائے اور یہ کہ حکومت تمام قانونی خامیوں کو دور کرے گی۔

مٹھائی

سپریم کورٹ کی جانب سے فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے کا نوٹس لیے جانے پر مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں

جمعرات کی سماعت کے دوران وہ کچھ مطمئن نظر آرہے تھے اور عدالت کی کسی بات پر اختلاف بھی نہیں کر رہے تھے۔

مقدمے کے درخواست گزار حنیف راہی بھی جمعرات کو عدالت میں موجود تھے تاہم آج ان کا ذکر ایک بار ہی سامنے آیا جب چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ’ہمارے سامنے کوئی آتا نہیں ہے، مسئلے حل ہو جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ خود ایکشن لیں، ہم کیوں لیں، ہمارے پاس ایک راہی آیا تھا پھر ہم نے ان کو جانے نہیں دیا‘۔

عدالت نے وقفے کے بعد جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی مشروط توسیع دینے کا اعلان کیا تو ذہن میں ججوں کے ریمارکس ٹکرز کی صورت چل رہے تھے کہ اتنے بڑے عہدے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ ہی موجود نہیں ہے۔

توسیع تو مشروط ہوئی لیکن مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس مقدمے کی وجہ سے پہلی بار اس بات کا پتا چلا کہ آرمی چیف کی توسیع کا کوئی قانون ہی نہیں ہے اور تین سال کی مدت کی توسیع محض ایک روایت ہے۔

عدالت نے تین دن کی طویل سماعتوں کے دوران آرمی چیف کی توسیع پر متعدد سوالات بھی اٹھائے ہیں جیسے سکیورٹی اور خطے کی صورتحال جیسی اصطلاحیں مبہم ہیں اور یہ کہ ایک افسر سے زیادہ ادارہ اہم ہوتا ہے۔

اب ان سوالات کے جوابات شاید اس مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں ہی مل سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp