نئی نسل کا نصاب اور استاد کی بے بسی


اس مضمون سے یہ ہر گز مراد نہ لی جائے کہ کسی لبرل خاتون کا اس قسم کا پروپیگنڈا ہے، جسے موم بتی مافیا وغیرہ کہا جاتا ہے۔ بلکہ یہ سراسر ایک تعلیمی اور نصابی نظام کے بارے میں سوچنے کی ایک کاوش ہے۔

تعلیم کے شعبے سے طویل وابستگی کے باعث اکثر اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ درج ذیل تصویر، جو میرے بیٹے نے مجھے بھیجی اور ساتھ ہی یہ سوال بھی لکھ بھیجا کہ بہ حیثیت، ماہر تعلیم، آپ اسے کیا کہیں گی،

اس سوال نے مجھے جس دکھ اور بے بسی میں مبتلا کیا، ان سطور کے ذریعے آپ سب کو بھی اس میں شریک کرنا، اس مضمون کا مقصد ہے۔

ہم اپنی نوجوان نسل کو کیا تربیت دے رہے ہیں اور ہمارے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے، اس صفحے کے مندرجات سے واضح ہے۔

یہ اسکول کے نصاب کے ایک صفحے کا عکس ہے، جس میں خاتونِ خانہ کے صبح 5 بجے سے رات گیارہ بجے تک کے معمولات کا اندراج ہے۔ جس میں با دل نخواستہ ایک گھنٹے کا آرام کا وقفہ بھی ہے۔

اس تربیتی چارٹ سے واضح ہے کہ ہم کم سنی میں ہی ایک بچی کے ذہنی افق کی پرواز کو محدود کر رہے ہیں۔ ذمہ داریوں اور فرائض کا یہ چارٹ، لڑکوں کے نصاب کا حصہ نہیں بنتا۔ لہذا ان پر کوئی پابندی اوقات یا سرگرمیوں کے حوالے سے نہیں ہے۔

یہ درست کہ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی تقاضوں کے مطابق عورت کا مرکز و محور، اس کا گھر ہے۔ لیکن ایک طرف تو بچیوں کی اعلیٰ تعلیم اور صلاحیتوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب انہیں شعوری طور پر ایسے چوہے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جن کے سروں پر ابتدا ہی سے لوہے کے خول چڑھا دیے جائیں۔ تا کہ اس سے باہر نہ وہ کچھ سوچ سکیں، نہ دیکھ سکیں۔

تعلیمی نظام اور نصاب کے المیے کا موضوع، پاکستان میں اب ایک گھسا پٹا موضوع بن چکا ہے۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ لاکھوں افراد، اسی کوشش میں ریٹائر ہو جاتے ہیں کہ شاید ہم کچھ تبدیلی لا سکیں۔ اس قسم کی مثالیں سینکڑوں ہیں جو ہمارے پیشہ وارانہ فرائض سے متصادم ہیں۔ لیکن پڑھانے والوں کے اختیار میں کچھ نہیں۔ اربابِ اختیار کے مہیا کردہ نصاب کو پڑھاتے ہؤے، ان کے سامنے لا جواب ہونا ان کی قسمت ضرور ہے۔

لیکن آنے والی نسلوں کے لیے ہمیں اس نہج پر سوچنا ضرور ہے کہ ہم اپنے قول و فعل میں، اپنی نئی نسل کے سامنے کیسے سر اٹھا کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک استاد کی حیثیت سے، یہ بے بسی کبھی کبھی مارے دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).