طلبہ یک جہتی مارچ اور مناظر کی معنویت


کراچی پریس کلب کے سامنے مارچ میں شرکت کے لیے پہنچا تو وہاں کئی رنگ کے لڑکے لڑکیاں موجود تھے۔ پھٹی پرانی جینز والے بھی اور شلوار قمیض والے بھی، برقع پوش لڑکیاں بھی اور جینز اور شرٹ میں ملبوس لڑکیاں بھی۔ پشتون لڑکوں نے الگ منڈلی جمائی ہوئی تھی۔ نظامت ایک منحنی سی لڑکی نے سنبھالی ہوئی تھی مگر اس کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ اس مارچ کا ڈول تو ترقی پسند اور لیفٹ سے وابستہ طلبہ نے ڈالا تھا لیکن خوش آیند بات یہ بھی ہے کہ مارچ میں دیگر طلبہ تنظیموں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اولیت کی داد البتہ لیفٹ کے ان طلبہ کو ہی دی جانی چاہیے۔

ایک سبز پوش ملنگنی بھی مجمع میں موجود تھی جو پریس کلب کے آس پاس نظر آتی ہے اور جس نے سبز لباس کے ساتھ ساتھ ایک کشکول بھی کمر سے باندھا ہوتا ہے۔ وہ مجمع کے درمیان کھڑی رقص کر رہی تھی۔ جب ناظمہ نے ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ والے اشعار پڑھنا شروع کیے تو سبز پوش ملنگنی کے رقص کی لے تیز ہو گئی۔ ایک طالبِ علم نے ملنگنی کو بٹھانے کی کوشش کی تو دوسرے طلبہ نے اس طالبِ علم کو پرے ہٹا دیا کیوں کہ ملنگنی اس مارچ کے رنگوں میں ایک خوب صورت اضافہ تھی۔

کچھ طلبہ پریس کلب کے سامنے والی سڑک کے ڈیوائیڈر پر بھی بیٹھے تھے۔ وہاں ایک طالبہ کو ساتھی طالب علم کے کاندھے پر سر رکھے دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔ مرد و زن کی باہمی الفت و محبت کے یہ مظاہرے میں تہران اور اصفہان تک میں دیکھ چکا ہوں لیکن صرف پاکستان ایسا ملک ہے جہاں اس سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ یہاں نفرت کے عوامی مظاہرے عام ہیں اور محبت کے عوامی مظاہرے ممنوع ہیں۔ اسی لیے ہمارا ملک نفرتوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔

مارچ میں بلوچ، پنجابی، بلتی اور پشتون طالب علم رہ نماؤں نے بھی خطاب کیا اور اپنے مطالبات کے حق میں بات کی جن میں طلبہ یونینوں کی بہ حالی سرفہرست تھی۔ اس کے علاوہ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کا مطالبہ بھی زور و شور سے کیا گیا۔ پاکستان ان ملکوں میں سے ایک ہے جو طبقاتی نظامِ تعلیم کے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ امیروں کے بچے پیسے دے کر شروع ہی سے بہتر تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ غریب کا بچہ سرکاری اسکولوں میں، جنھیں پیلے اسکول بھی کہا جاتا ہے، پڑھتا ہے۔ لاکھوں بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو تین مختلف دنیاؤں کے باسی ہوتے ہیں اور معاشرے میں پولرائزیشن بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ انھیں معاشی کام یابی کے یک ساں مواقع بھی حاصل نہیں ہو پاتے۔

ان حالات میں طلبہ یونینیں ضرور بہ حال ہونی چاہئیں تاکہ طلبہ اپنے مسائل پر مقتدر لوگوں سے خود بات کر سکیں۔ طلبہ کی سیاست میں دلچسپی خوش آیند امر ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ صرف فاتح پینل نہیں بلکہ زیادہ ووٹ لینے والے پہلے دس امیدواروں کو یا لسٹ سسٹم کے تحت طلبہ کے زیادہ ووٹ لینے والی تمام تنظیموں کے نمایندوں کو طلبہ کی نمایندگی کا حق دار قرار دیا جائے۔ یعنی اگر بارہ ووٹ لینے والی تنظیم کو دو نشستیں ملتی ہیں تو چھ ووٹ لینے والے کو سسٹم سے نکالا نہ جائے بلکہ اسے بھی ایک نشست دی جائے۔ لسٹ سسٹم کا طریقہ ء کار اسرائیل میں رائج ہے جہاں ہر سیاسی جماعت انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی ترجیحی فہرست پیش کرتی ہے۔ انتخابات میں ووٹ سیاسی جماعت کو ملتے ہیں اور جتنے زیادہ ووٹ ملتے ہیں اتنے ہی زیادہ اس کے امیدواروں کو کام یاب قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ لسٹ سسٹم قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ہمہ گیر نمایندگی اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ طلبہ میں جمہوریت کا یہ اصول راسخ ہو جائے کہ جمہوریت صرف اکثریت کی حکم رانی کا نام نہیں بلکہ اس میں ہر طبقہ ء آبادی کی شراکت ضروری ہے۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس میں آج مودی، ٹرمپ اور نیازی جیسے لیڈر گرفتار ہیں کہ انھیں پارلیمانی اکثریت مل گئی تو وہ اب ہر چیز کے مالک و مختار ہو گئے ہیں۔ اکثریت حاصل نہ کر سکنے والے لوگ بھی عوام ہی کے ووٹ لے کر آتے ہیں انھیں بھی عوام کا نمایندہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔

دنیا بھر میں ترقی کی نئی راہیں جو زیر آسماں نکلی ہیں تو سیاست کے مضمون اور موضوع کو طلبہ کے لیے ممنوع قرار دے کر انھیں ان کی ذاتی ترقی پر فوکس کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں ایسی نوجوان نسل تیار ہوئی ہے جس نے گلیمر کو سیاسی نظریے کا نعم البدل سمجھ لیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ہی افراد کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر پاپولزم اور پاپولسٹ لیڈر فروغ پا رہے ہیں۔ سیاسی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے نوجوان جب کسی گلیمرائزڈ شخصیت کو ”تبدیلی“ کا علم اٹھائے دیکھتے ہیں تو اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ فینامینا پوری دنیا میں جمہوریت کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ طب، طبیعات، کیمیا، معاشیات، قانون غرض ہر علم کی طرح علم سیاسیات بھی پیشہ ورانہ تخصیص مانگتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر پیشے کے لیے اس پیشے کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے لیکن سیاست کے لیے گلیمر کے میدان کے ایسے افراد اوپر آنے لگے ہیں جو سیاسی لحاظ سے غیر پیشہ ور ہیں۔ ان غیر پیشہ ور، امیچور اور ام میچور سیاست دانوں نے پیشہ ور سیاست کو گالی بنا دیا ہے۔

گلیمر میں مناظر اور وژولز کی اہمیت کلیدی ہے۔ کلچر کے لیے گلیمر کی سیمیاٹکس کی اہمیت روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ تصویریں اور مناظر جو کلچرل کی کسی رگ کو چھیڑ دیں ان کا مطالعہ سیمیاٹکس کے تحت کیا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنب کے بعد فرانس کے فلسفیوں رولاں بارتھ، ژاک دریدا، ژولیا کرستیوا بلکہ ہمارے محبوب ناول نگار امبرٹو ایکو نے بھی ثقافت کے لیے تصویروں اور مناظر کے معنی پر بہت کام کیا لیکن ہمارے ہاں کے سیاسی مفکرین شاید ان فلسفیوں کو نرے فلسفی ہی سمجھے بیٹھے ہیں۔ گلیمر کی اس سیمیاٹکس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کے پہلو مثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔ اس کے مثبت پہلوؤں پر اصرار ہم تبھی کر سکیں گے جب ہم اس فینامنا کو سمجھ لیں گے۔

گلیمر کی سیمیاٹکس کو پہلے انقلابیوں نے ہی استعمال کیا تھا اور لینن اور چے گویرا کی تصویریں پاپولر کلچر کا حصہ بن کر حقیقی تبدیلی کی جدوجہد میں کام آئی تھیں۔ پاکستان میں حالیہ طلبہ تحریک سے کچھ روز پہلے لاہور کے فیض میلے میں عروج اورنگ زیب کی نعرے لگاتے ہوئے وڈیو اور تصویر وائرل ہوئی جو گلیمر کی سیمیاٹکس کا ہی ایک انداز ہے۔ طلبہ مارچ میں ڈھول کی تھاپ، موسیقی اور منفرد نعرے بازی طلبہ میں سیاسی دلچسپی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ چلی کے معروف انقلابی شاعر اور فوک گلوکار وکٹر ہارا یاد آتے ہیں جنھیں چلی میں جنرل پنوشے کی فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی موت کے بعد ان کی برطانوی بیوی، رقاص اور ایکٹوسٹ جون ہارا نے ان کی یاد کو زندہ و تابندہ رکھا۔

مارچ کرنے والے طلبہ کو ایک بات اور بھی سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ کہ مغرب میں لیفٹ کا نظریہ اب کوئی جامد نظریہ نہیں۔ غریبوں کے حالات میں بہتری، معاشی عدم مساوات دور کرنے، صحت اور تعلیم کے مواقع کی یک ساں فراہمی، مزدوروں اور طلبہ کے تحفظ اور کرہ ء ارض کے ماحول میں بہتری کے لیے اب لبرل ڈیموکریسی، گرین موومنٹ، لبرٹیرین تحریک اور آکوپائی ناؤ جیسی تحریکیں بھی میدان میں ہیں جنھوں نے سوشلسٹ نظریات سے کافی استفادہ کیا ہے لیکن جدید دور کے نئے تقاضوں کے مطابق نظریات کو تبدیل بھی کیا ہے۔ ان تحریکوں کو بھی غیر نہ سمجھا جائے کیوں کہ یہ تحریکیں بھی اپنی اساس میں سامراج دشمن تحریکیں ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ ہمارے نئے طالب علم رہ نما مغرب کی ان نئی تحریکوں سے آگاہ ہوں گے اور ان کے تجربات سے بھی استفادہ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).