آپ کا باس بھی آپ کا ”محتاج“ ہے


رشتوں اور جذبات کی نفسیات۔
”غیر متعلق“ لوگوں سے جذباتی تعلق۔

ہم نے اس مکمل سلسلے میں مختلف رشتوں اور ان میں موجود جذباتی انحصار کے پہلو دیکھے۔ اس کے بعد کا مضمون ممکنہ طور پہ اس سلسلے کا آخری مضمون ہے اور میری کوشش ہے کہ وہ بھی جلد آپ تک پہنچ جائے۔

جب ہم رشتوں اور جذباتی تعلقات پہ بات کرتے ہیں تو اپنے اس تعلقات کے دائرے میں گھر والے، شریک حیات، دوست، حد یہ کہ کسی حد تک سسرال والوں کو بھی شامل کر ہی لیتے ہیں لیکن ان افراد کو بھول جاتے ہیں جن کے بغیر ہماری روز مرہ کی زندگی اصل معنوں میں چل ہی نہیں سکتی۔ یعنی وہ تمام لوگ جو اس اوپر بیان کردہ لسٹ کے علاوہ ہیں۔ اس میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے بھی آجاتے ہیں اور ہمارے لیے کام کرنے والے بھی آجاتے ہیں۔ وہ جن سے ہمارا رزق جڑا ہے، وہ جن کا رزق ہم سے جڑا ہے اور وہ جو ہمارے ساتھ مل کر حصول رزق کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں کہیں یہ تعلق رزق یا پیسوں کی کسی بھی لین دین کے علاوہ ہوتا ہے۔ یعنی پڑوسیوں سے۔

لیکن ایک فرد کی زندگی کی جذباتی نوعیت کو مکمل سمجھنے کے لیے ان سب کی موجودگی کو نظر انداز بالکل نہیں کیا جاسکتا۔ روز کی بنیاد پہ ہمارے اردگرد رہنے والے، ہم سے روز ملنے والے ہماری زندگی پہ اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں اور ہم بھی کسی نہ کسی حوالے سے ان کی زندگیوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کا ادراک کیے بنا بہت سے فیصلے کرتے ہیں اور پھر نتیجہ اپنی مرضی کا نہ نکلے تو بہت مایوس بھی ہوجاتے ہیں۔

ہم اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ ایک طرف ہم بہت سے ایسے لوگوں کے محتاج ہیں جن کو ہم اپنا محتاج سمجھ رہے تھے اور وہ لوگ جن کے لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے محتاج ہیں در حقیقت وہ بھی ہمارے محتاج ہیں۔ یعنی وہی باہمی انحصار کا عنصر یہاں بھی موجود ہے۔ قدرتی باہمی انحصار کے جال کی طرح معاشرتی باہمی انحصار بھی ایک اٹل حقیقت ہے جہاں ہر فرد اور طبقہ اہم ہے۔ لیکن یہ توازن تب بگڑتا ہے جب ہم کسی فرد، طبقے یا پیشے کو غیر اہم سمجھ کر اس کی معاشرتی بقاء کو غیر اہم سمجھ لیتے ہیں۔

جب معاشرے میں اہم سمجھا جانے والا طبقہ، کم اہم طبقات کی ضروریات تک پہنچ کو محدود کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں باہمی انحصار کا توازن بگڑنے لگتا ہے۔ یعنی ہم جن پہ انحصار کر رہے ہیں ان کا اپنے اوپر انحصار کم کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی زندگی مشکل ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر طبقات اپنی بقاء کے لیے کبھی کبھی فرد کی سطح پہ اور کبھی مکمل طبقے کی سطح پہ ردعمل دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ ردعمل مثبت ہو یا منفی بقاء کے لیے ذرائع کے حصول کی کوشش کے گرد ہوتا ہے۔

جس طرح قدرتی غذائی زنجیر کا توازن بگڑنے پہ کسی علاقے کا مکمل جغرافیہ بدل سکتا ہے اسی طرح معاشرتی معاشی زنجیر کا توازن بگڑنے پہ بھی نتیجہ معاشروں پہ بہت غیر معمولی اثر ڈالتا ہے۔

آج کل کا ایک عمومی نظریہ یہ ہے کہ غریب افراد غریب اس لیے ہیں کیوں کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک نہیں، وہ کام سے بچنا چاہتے ہیں، وہ تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہمیں یہ نظریہ ہمیشہ اپنے سے نچلے طبقے پہ صادق لگتا ہے جبکہ جب ہم سے ذرا اوپر کے عہدے پہ بیٹھا کوئی شخص یہ بات کہہ رہا ہوتا ہے تو وہ ان ڈائریکٹلی ہمیں بھی جتا رہا ہوتا ہے کہ یہ تمہاری نا اہلی اور سستی ہے جو تم یہاں نہیں جہاں میں ہوں۔

افسوس کی بات یہ کہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ ہم خود کتنی محنت سے اپنے گھر کے خرچے پورے کر رہے ہیں ہم دوسرے کو سست اور بے صلاحیت سمجھنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے۔ جہاں ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ دس کلاسیں پڑھنے تک ہم نے کون کون سی اعلی ڈگریوں کے خواب نہیں دیکھے تھے مگر اس حصول کے سامنے فیس، غیر معیاری تعلیم، چھوٹے شہر سے تعلق پہاڑ کی طرح کھڑے تھے وہاں ہمیں دوسرے کا میٹرک انٹر تک پڑھا ہونا اس کی کند ذہنی لگتی ہے۔

اب ذرا پچھلے تمام مضامین کے تناظر میں دیکھیے، ایک شخص جو والدین کی طرف سے مناسب توجہ حاصل نا کرسکا اور اس کی بنیاد پہ اپنے بیوی بچوں سے ایک مثبت تعلق بنانے میں بھی مشکلات کاسامنا کر رہا ہے اور اگر وہ ایک مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس غریب یا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے تو معاشرے میں اس کا کردار کیسا ہوگا۔

اگر ہم یہ سمجھتے رہیں گے کہ میرا معاشرتی مسائل سے کوئی تعلق نہیں تو بھی وہ مسائل ہم پہ اثر انداز ہوتے رہیں گے۔ اگر ہم محلے کے بہتر ماحول کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو ہمارے گھر کا بچہ اسی ماحول سے گالی سیکھ کر آئے گا اور ہمیں ہی گالی دے گا۔ یہ تو ایک مثال ہے کیوں کے میرے لیے ایک بچے کا کسی کو گالی دینا بے معنی ہے کیوں کہ اس کے لیے وہ الفاظ بے معنی ہیں۔ لیکن جس طرح ایک بے ضرر گالی آپ کے گھر کے ماحول کو متاثر کر سکتی ہے اسی طرح آپ کے اردگرد ہوتا کوئی بھی ظلم اور نامناسب رویہ آپ کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہوتا ہے۔ بہتری کے ابتداء اپنی ذات سے شروع کیجیے لیکن اس کا دائرہ معاشرتی مسائل تک ضرور لے کر جائیے اسے اپنی ذات یا گھر تک محدود مت رکھیے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima