ہندوستان کا پس ماندہ طبقہ اور میڈیا


\"alamullah\"

ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر چند احباب کے ذریعہ چلائے جا رہے دلت ایونٹ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس میں پوری دنیا سے لوگوں نے اپنے مضامین، افسانے اور نظمیں ارسال کیں۔ ان سبھوں کو پڑھنے کا موقع ملا تو مجھے بھی ایک صحافی کی حیثیت سے میڈیا کے حوالہ سے اس پر غور کرنے کاخیال آیا۔ اگر ہندوستان کے دس اہم اخبارات کا مطالعہ کے لحاظ سے نام لیا جائے تو ان میں سب سے اوپر ہندی اخبارات کے نام آتے ہیں۔ دس کی فہرست میں پانچ ہندی زبان کے اخبارات ہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کو دیکھیں تو وہاں بھی ناظرین کی تعداد کے لحاظ سے ہندی چینل ہی چھائے ہوئے ہیں۔ ہندی اخبارات کی اشاعت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حالاں کہ اردو والے بھی ایسا دعوی کرتے نہیں تھکتے۔ اردو اخبارات کے اس دعوے کی قلعی ابھی حال ہی میں آنے والی ایک کتاب ”دہلی میں اردو صحافت کا منظر نامہ“ جو کہ ایک دیدہ دلیر ریسرچ اسکالر شاہد الاسلام نے لکھی ہے، سے بھی کھلتی ہے۔

اردو یا ہندی زبان کے میڈیا نے اپنے پھیلاؤ اور تشہیر کے میدان میں جتنا کام کیا ہے، اتنا کام باشعور قاری پیدا کرنے کے لیے نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ میڈیا کے اپنے رویے ہے۔ معاشرے کے اثر و رسوخ والے طبقے کے ساتھ مل کر چلنا، اور اس کو برقرار رکھنا میڈیا کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاشرے کو اگر پس ماندہ طبقے کی فکر نہیں ہے، تو میڈیا میں بھی اس کے لیے جگہ نہیں ہوگی۔ میڈیا بالآخر سماجی ڈھانچے ہی کا اظہاریہ، یا اعلامیہ ہے۔ وہ سماجی طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر چلتا ہے۔ انہیں چھیڑنا میڈیا کی فطرت میں نہیں۔ آج صورت احوال یہ ہے، کہ میڈیا میں سائنسی شعور کے لیے جگہ کم ہے، بے کار مسائل کے لیے جگہ، وقت، اور سرمایہ سبھی کچھ ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ ہماری میڈیا کے پاس جذباتی، یا غیر ضروری کام کے لیے مجمع جمع کرنا آسان ہے، لیکن کسی سنگین مسئلے پر بات چیت کرنا انتہائی مشکل۔

اس کے لیے صرف میڈیا ذمہ دار ہے، یہ کہنا غلط ہو گا۔ سائنسی شعور اور دانش ورانہ سوچ کے لیے معاشرے کے دیگر ساختیاتی ڈھانچے میں، ہم نے کتنی جگہ لی ہے، یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ سائنسی شعور کی تعمیر میں تعلیم ایک ضروری شئے ہے۔ اگر تعلیم کی ترقی اس بنیاد پر کر پائیں تو میڈیا میں بھی ان کی تصویر دکھائی دے گی۔ کیوں کہ میڈیا میں جو لوگ آ رہے ہیں وہ اسی نظام سے آ رہے ہیں۔ اب صورت احوال یہ ہے کہ سماجی ضرورتوں کا ادراک کیے بغیر کالم سے اخبارات کے پیٹ بھرے، اور بے جا لفاظی اور مقصد سے عاری اداریے لکھے جاتے ہیں۔ جب تک ان سب کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا، پسماندہ طبقے کی بات کیسے ہوگی۔ غیر سائنسی شعور اور اندھی تقلید کی مار کو، سب سے زیادہ یہی طبقہ جھیلتا ہے۔ پس ماندہ لوگوں میں سے جن حصوں کو سیاسی اقتدار میں حصہ داری ملی ہوئی ہے، وہ بھی ان سے اچھوتے نہیں۔

میڈیا کی تاریخ اندھی تقلید یا دقیانوسی تصورات کے خلاف رائے عامہ ہم وار کرنے اور سائنسی خیالات کے حق میں بیداری پیدا کرنا رہا ہے۔ ایسے رسائل کو نکالنے والوں کی وفاداری اور اپنے ملک اور عوام کے تئیں خدمت اور محبت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ وہ معاشرے کی بیماری کو پہچانتے تھے۔ مگرڈیجیٹل جرنلزم کے بعد ہندوستان میں آج جتنے اخبارات اور چینلز آئے، ان میں فضول چیزوں کو شائع کرنے یا دکھانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ انٹر نیٹ کا کوئی بھی صفحہ کھو لیے تو وہاں سب سے پہلے جنس سے متعلق ہیجان انگیز اشتہار، راشی پھل، واستو یا اسی قبیل کی غیر ضروری چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ یعنی سماجی عادات میں اندھی تقلید، جہالت، منفی رویہ جات ہی سے میڈیا مطمئن ہے۔ اسے ختم کرنے میں میڈیا یا میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔

ہمارے یہاں میڈیا کی اکثریت کسی خاص نظریے کے ساتھ منسلک دکھائی دیتی ہے۔ نظریاتی اور سماجی بحران کے وقت یہ وابستگی اور بھی گہری ہو جاتی ہے۔ ہندی میڈیا کا فرقہ وارانہ خیالات کے ساتھ دوستی کا رشتہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جس کی تفصیلات کئی بار منظر عام پر بھی آ چکی ہیں۔ حیرت ہے کہ آج بھی شعور کے رویہ کا فقدان ہے، اور بغیر شعور کے نقطہ نظر کو بیدار کیے ہوئے، ہم پس ماندہ سماج کی بات نہیں کر تے۔ پس ماندہ طبقے میں وہ سبھی طبقے شامل ہیں، جو سماج میں ذات، جنس، مذہب، جسمانی معذوری کی وجہ سے نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ ان میں دلت، عورتیں، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی وغیرہ۔ جسمانی اور ذہنی طور پر مختلف صلاحیت والے لوگ، سب شامل ہیں۔ پس ماندہ افراد، یا گروہوں پر بات کرتے ہوئے خصوصی طور پر دلت پس ماندہ طبقات، آدی واسی، اور خواتین کی بات کی جاتی ہے۔

جہاں تک میڈیا میں پس ماندہ طبقے کی موجودگی کا سوال ہے، تو یہ متعدد تحقیقات اور سروے سے ظاہر ہو چکا ہے، کہ ان کی آبادی کے حساب سے، میڈیا میں ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ رابن جیفری نے کیرالا ماڈل کو بنیاد بنا کر لکھی گئی اپنی کتاب ’میڈیا اینڈ ماڈرنیٹی‘ میں اس بات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے کہ میڈیا میں دلت طبقے کے نمایندے نہیں ہیں۔ کچھ لوگ کچھ کام کر رہے ہیں، تو وہ اپنی ذاتی شناخت چھپا ئے ہوئے ہیں۔ مختلف وقتوں میں کیے گئے سروے بتاتے ہیں، کہ میڈیا میں اعلی عہدوں پر پس ماندہ طبقے کے افراد، تعداد میں کم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آزادی کے اتنے سال بعد جب کہ دلت، اقلیتوں، پس ماندہ اوردیگر طبقات میں اچھا خاصا متوسط طبقہ پیدا ہو چکا ہے، میڈیا کی خبروں سے وہ کیوں غائب ہے؟ یہ جو نیا متوسط طبقہ آیا ہے اہم ہے۔ پڑھا لکھا ہے، مگر اس کے لیے روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں تعلیم آدمی کو روزگار سے نہیں جوڑ پاتی، بلکہ تعلیم کا ڈھانچہ اس طرح کا ہے، کہ اس میں شخص اپنی مہارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ پڑھا لکھا آدمی پیشہ ور نہیں بنتا، وہ صرف روزگار تلاش کرتا ہے۔

اس کی وجہ ہے، پیشہ ورانہ نقطہ نظر، اہلیت اور قابلیت کی مہمیزی کو روک لگانا۔ ان کی ہمت افزائی نہ کرنا۔ دلتوں، خواتین، اقلیتوں کی خبریں اگر ہم آہنگ ہوکر میڈیا میں نہیں آ رہی ہیں، تو ان کے اپنے متوسط طبقے کی پہل کتنی ہے؟ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ آج یہ نہیں کہہ سکتے کہ اخبار یا چینل ہماری خبریں نہیں دے رہے اور ہماری خبریں لوگوں تک پہنچتی نہیں۔ آج سوشل میڈیا ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے، اور ایک بار خبر جب وہاں ٹرینڈ کرنے لگتی ہے، تو دیگر میڈیا ہاوس دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں ایسی خبروں کو جگہ دینا ہی پڑتی ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں میں موضوع کی معلومات، اس سے متعلق اظہار کے لیے کتنی ہمت ہے۔ بڑی تعداد میں عورتیں اور پس ماندہ طبقہ سوشل میڈیا میں سرگرم ہیں، مگر وہ اپنے طبقے کی ضرورتوں کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے۔ یہ بات ہم مسلمانوں کے حوالہ سے بھی کہہ سکتے ہیں۔ خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے۔ انھیں تو سیلفی، آپس کی چپقلش اور فرقہ وارانہ ریوں پر پوسٹ اور کمنٹ کرنے سے فرصت نہیں ملتی۔ مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو مسلم مسائل سے متعلق علم ہی نہیں، تو وہ اس پر کیا بات کریں گے، یا ان مسائل پر غور و فکر کی کیا تدابیر کریں گے۔

جہاں تک میڈیا اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کی بات ہے، تو وہ کسی کے کردار کو نہیں بناتے، ان میں لگا پیسا ان کے کردار کو بناتا ہے۔ اگر ایک میڈیا ہاوس میں تمام پس ماندہ لوگ کام کرنے لگیں، تب بھی اس کی ضمانت نہیں لی جا سکتی، کہ میڈیا کا کردار انقلابی ہو جائے گا۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ میڈیا کی ملکیت کس کے ہاتھ میں ہے، اور اس کے مفاد ات کیا ہیں۔ امریکا میں امریکی سوسائٹی آف نیوز پیپر ایڈٹرس (اے ایس این آئی) نے 1970 میں ہدف طے کیا، کہ 2000ء تک امریکی میڈیا میں آبادی کے تناسب سے، پس ماندہ لوگوں کو جگہ دی جائے گی۔ لیکن اس سے کیا خبر وں کے معیار پر کوئی فرق پڑا؟ میڈیا کے رویہ میں کوئی تبدیلی آئی؟ جب تک نقطہ نظر اور شعور میں تبدیلی نہیں لا ئی جاتی، کوئی بڑی تبدیلی ناممکن ہے۔

ہمارے یہاں میڈیا کم سے کم وسائل سے کام چلاتا ہے۔ مالکان اپنی کمائی کا انتہائی قلیل حصہ صحافیوں کی تنخواہوں پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ پس ماندہ افراد کی خبروں کے لیے الگ سے نامہ نگار نہیں رکھتے۔ ادارے جائے وقوعہ تک جانے دینے کے اسباب مہیا نہیں کرتے۔ خبروں کا فوکس سکڑ کر شہروں تک مرکوز ہو گیا ہے۔ کچھ اطلاعات مطلوبہ مراکز سے فون کے ذریعہ حاصل کر کے رپورٹ بنا دی جاتی ہے۔ ایسی خبریں اعتبار نہیں بناتیں، اعتماد نہیں بڑھاتیں۔ یہی وہ دور ہے، جب میڈیا کو سب سے زیادہ اعلان کرنا پڑ رہا ہے، کہ وہ حقیقت اور سچائی پیش کر رہا ہے۔ مختلف \’بِیٹ\’ کے اچھے صحافی نہیں ہیں، رپورٹر نہیں ہیں؛ اب ماہرین کو بلا کر ”اینکرنگ“ کے ذریعے پروگرام تیار ہو رہے ہیں۔ میڈیا روایتی پیشہ نہیں ہے؛ یہ پیشہ ورانہ رویے کا مطالبہ کرتا ہے۔ پیشہ ورانہ رویہ پیشہ ورانہ ذمہ داری کو بھی طے کرتا ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments