کراچی میں پولیس کانسٹیبل سے جھگڑے کی خبر غلط طور پر میرے نام سے منسوب کی گئی: شمع جو نیجو


معروف اردو کالم نویس شمع جونیجو نے بتایا ہے کہ چند روز سے فیس بک پر ان کے خلاف سینکڑوں بلکہ ہزاروں جھوٹے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ یہ سٹوری پاکستان میں سوشل میڈیا پرمتواتر چل رہی ہے کہ کراچی میں کسی چوک پر ٹریفک کانسٹیبل نے کار میں سوار خاتون کو روکا تو اس نے پولیس والے کو دھمکایا۔ یہ واقعہ ایک معروف ٹی وی چینل نے نشر بھی کیا لیکن سوشل میڈیا نے اس پر ایک جعلی سٹوری گھڑی کہ وہ خاتون کسی با اثر شخصیت کی واقف کار تھی اور اسی بنیاد پر پولیس والے کو دھمکیاں دے رہی تھیں۔

 شمع جونیجو نے بتایا کہ کسی سوشل میڈیا والے نے اس جعلی سٹوری میں میرا نام اور میری تصویر دے دی کہ یہ وہ خاتون ہے۔ خبر کے ساتھ میری آصف زرداری صاحب کے ساتھ تصویر وائرل کر دی۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کے قائد جناب آصف علی زرداری صاحب کا میں نے لندن میں انٹرویو کیا تھا جو پاکستان کے اخبارات میں شائع ہوا۔ یہ انٹرویو کے ساتھ لی جانے والی تصویر تھی۔

جہاں تک کراچی کے ایک چوک پر ٹریفک پولیس والے سے لڑنے والی خاتون کا تعلق ہے، اس خاتون کی شکل صورت بھی مجھ سے قطعی مختلف ہے۔ شمع جونیجو نے بتایا کہ اس جعلی سٹوری کے جواب میں مجھے گالیوں سے نوازا گیا۔ اور بے شمار میسج ملے جس میں مجھے اور میرے بچوں کو برا بھلا کہا گیا حالانکہ میں برسوں پہلے لاہور اور کراچی میں ضرور رہی اور میرا گھر آج بھی سندھ میں ہے جس میں میری بہن رہتی ہیں۔ میں تو کئی برس سے پاکستان میں داخل بھی نہیں ہوئی۔ شمع جونیجو نے بتایا کہ میرا پتہ تلاش کر کے کچھ نامناسب قسم کے لوگ میری بہن کے گھر پہنچے اور میرے بارے میں معلوم کرنا چاہا۔

میری بہن نے بتایا کہ وہ تو کتنے سال سے لندن میں رہتی ہیں۔ وہ خود پولیس والے کی بیوی ہیں جو اقوام متحدہ میں کام کرتا ہے اور اس کے بیٹے اور بیٹی کا کوئی تعلق بھی پاکستان میں ہونے والے واقعہ سے نہیں ہے۔ شمع جونیجو نے بتایا کہ کئی دن سے میں ذہنی عذاب کا شکار ہوں اور فیس بک پر جواب دیتے دیتے تھک گئی ہوں لیکن یہ پراسرار لوگ میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ان میں ایک وفاقی وزیر زرتاج گل کا اکاؤنٹ بھی نظر آیا جو لگتا ہے کہ کسی نے جعلی بنایا ہے۔

شمع جونیجو نے کہا کہ میں لندن میں قانون میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوں اور آصف زرداری صاحب کے علاوہ بھی میں نے بہت سی شخصیتوں کے انٹرویوکیے ہیں۔ زندگی میں کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ ٹریفک پولیس کانسٹیبل سے لڑنے والی خاتون کی سوشل میڈیا پر تصویر بھی موجود ہے جو پاکستان میں اُردو کے قارئین میری تصویر کے ساتھ ملا کر دیکھ سکتے ہیں اور سچ اور جھوٹ کا خود اندازہ کر سکتے ہیں۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان میں ایف آئی اے کی سائبر کرائم اتھارٹی سے رابطہ کیا ہے اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سلطان خواجہ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ میں کوائف انہیں ارسال کروں۔ وہ ملزموں کا پتہ کروائیں گے جو مجھے اور پاکستان میں میری چھوٹی بہن کو ہراساں کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).