نکودر کے تحصیل دار کا جلسہ اور کسان کی تقریر


آج کا نکودر (جالندھر)

میرے خیال میں اگر اشتمال اراضی کا کام حلقہ پٹواری سے کروایا جائے تو بہت فائدہ مند اور کارآمد ثابت ہو گا۔ پٹواری کو حکم دیا جائے کہ گاؤں کے لوگوں کو متفق کر کے نقشہ تیار کرے۔ جب سب کے سب لوگ رضامند ہو جائیں تو انتقال مربع بندی کا کیا جاوے۔ اگر ہر ایک پٹواری فی سال ایک گاؤں کی مربع بندی کر دے گا تو تین چار سال کے عرصے میں کل علاقہ کی مربع بندی ہو سکتی ہے۔ گاؤں کے پٹواری کو ہر ایک زمین کی حیثیت بھی معلوم ہوتی ہے نیز گاؤں کے زمیندار مزید خرچے سے بھی بچ سکتے ہیں جو سپیشل انسپکٹر مقرر کرنے پر زمینداروں پر پڑتا ہے۔

نمبر 3۔ محکمہ زراعت بھی بڑا فائدہ مند اور کارآمد ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر زمین کی پیداور محنت مشقت سے بڑھائی جاتی ہے تو جنس کے بھاؤ گر جاتے ہیں اور سنا ہے کہ تمباکو بیچنے والوں پر ٹیکس لگا دیے ہیں۔ اس لیے شبہ ہے کہ بیچنے والوں کے بعد بونے والوں پر بھی نہ لگا دیا جائے۔ مختلف قسم کا گنا بونے سے اس کی قیمت اس قدر گر گئی ہے کہ زمینداروں کی محنت بھی وصول نہیں ہوتی اور فارمی گنا کی فصل صرف کارخانہ شکر سازی کے مالکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جاتی ہے جو افراط کی وجہ سے دو آنہ فی من گنا زمیندار سے خریدتے ہیں اور بعض تو سارا دن انتظار کرکے اپنا گنا واپس لے آتے ہیں اور بعض خوشامد وغیرہ کرکے بیچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نیز سنا گیا ہے کہ بٹیرے وغیرہ پکڑنے پر بھی لائسنس کر دیا گیا ہے جو بے چارے زمیندار فصل گیہوں کی کٹائی کے موقع پر چند روز بطور خوراک استعمال کرکے پیٹ کی میل نکال لیا کرتے تھے۔ اور نامعلوم زمیندار بے چاروں پر کون کون سی پابندیاں عاید ہونے والی ہیں۔

نمبر 4۔ جناب تحصیلدار صاحب نے ہم لوگوں کو مقدمہ بازی سے بچنے اور پنچایتیں قائم کرنے کے لیے حکم و ہدایت کی ہے اس کے ہم تہ دل سے مشکور و ممنون ہیں۔ لیکن افسوس ہم زمینداروں کی عقل و سمجھ بالکل ضائع ہو چکی ہے۔ اگر ہم خود پنچایتیں قائم کر سکیں یا قائم کرنے کے قابل ہوں تو پھر مقدمہ بازی اور فساد ہی کیوں کریں۔ اگر ہم لوگ عقل و شعورسے کام کریں تو پنچایتوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اس کے علاوہ مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سرکار نامدار خود ہم کو مقدمہ بازی کا سبق پڑھاتی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ہمارے درمیان مقدمہ بازی کا بیج بوتی ہے۔

نکودر کا سکھ کسان

پس میرے ان الفاظ سے حاضرین جلسہ، خاص کر سرکاری ملازموں کے کان کھڑے ہو گئے۔ میں نے عاجزانہ طور مثال پیش کی۔ فرض کرو کہ ایک شخص کو سرکار نے دو اچھے بیلوں کی جوڑی دے دی اور کاشت کاری کے دیگر آلات سے خوب آراستہ کر دیا۔ نیز ایک یا دو نوکر بھی دے دیے اور زمیندار کا اعلیٰ خطاب بھی دے دیا۔ لیکن اس شخص کے پاس قطعہ اراضی بالکل نہیں ہے۔ پس آپ ہی انصاف سے بتائیے کہ وہ شخص بغیر قطعہ اراضی متذکرہ بالا آلات کیسے اور کہاں پر استعمال کرے گا۔ پھر وہ خطاب یافتہ مسلح شخص کسی نہ کسی طریقے سے زمین حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ مذکورہ بالا آلات کو استعمال کر سکے اور اپنے خطاب اور رعب کو قائم رکھ سکے۔

پس میرے خیال کے مطابق جناب آنریری مجسٹریٹوں کی حالت و حیثیت بالکل ایسی ہی ہے جیسا کہ آ ج کل عمل میں آ رہا ہے۔ ایک شخص علاقے میں صاحب حیثیت اور بارسوخ ہوتا ہے، اس کو سرکار عالی خان صاحب یا سردار صاحب کا خطاب عطا کر دیتی ہے اور ساتھ ہی آنریری مجسٹریٹ کا عہدہ مل جاتا ہے۔ ایک چپڑاسی اور ناظر بھی سرکار کی طرف سے مقرر کر دیاجاتا ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مقدموں کے فیصلے کرو لیکن علاقے میں مقدمے ہیں نہیں۔

پس اس وقت وہ خطاب یافتہ وہی کرے گا جو پہلے بیان کر چکا ہوں۔ یعنی علاقے میں دھڑے بندی کرائے گا جو کہ مقدمہ بازی کا موجب بنے اور مقدمہ پیدا ہونے سے اعزازی کچہری گرم ہو۔ اس طرح اعزازی عادل کی عزت لوگوں میں اور افسران بالا میں روز بروز بڑھتی جائے گی۔ اس طرح اعزازی عہدوں کی شاخیں گاؤں بہ گاؤں پھیلتی چلی جائیں گی۔ دوسرے چوہدری صاحبان بھی عادل صاحب سے واقفیت پیدا کر لیتے ہیں۔ جس کی خاص مہربانی سے ان کے پاس دفعہ 202 کی رپورٹیں برائے تحقیقات معمولی مقدمات کی بھیج دی جاتی ہیں جن کی وجہ سے خود ساختہ چوہدریوں کی بھی علاقے میں قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے اور تھوڑا بہت آمدنی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔

اگر اجازت ہو تو میں ایک خود ساختہ چوہدری کی ایک عجیب و غریب کارروائی سناتا ہوں۔ کسی گاؤں میں ایک سقے کے پاس ایک بھینس تھی۔ اتفاقیہ طور پر ایک روز اس سقے کی بوڑھی ماں کو بھینس نے مارا اور وہ بوڑھی زخمی ہو کر بے ہوش ہو گئی۔ گاؤں کے چوہدری کو جب پتہ چلا تو سقے کو بلا لیا اور سقہ کو کہنے لگا بھینس کا بوڑھی کو مارنا ایک ناگہانی واقعہ ہے جس کی رپورٹ سرکاری قانون کے مطابق پولیس میں کرنی ضروری ہے۔ اگر خدا نخواستہ بوڑھی مر گئی تو کام بڑا خراب ہو گا۔

پولیس تحقیقات کرے گی تو گاؤں اور خاص کر تمھارے لیے باعث تکلیف ہو گا۔ اس لیے بہتر ہے پولیس کو حادثے کی اطلاع دے دی جائے۔ پس سقے بے چارے نے حسب حکم چوہدری صاحب کے ہمراہ تھانہ میں آ کر رپورٹ درج کرا دی۔ تھانہ کے ہیڈ محرر نے سقے سے سوال کیا کہ کیوں بھینس نے بوڑھی کو مارا اور طرح طرح کی دھمکیاں دیں۔ جس پر سقہ غریب ڈر گیا اور جواب میں کہا کہ شاید بوڑھی نے بھینس کی خوراک، دانے بنولے میں کمی کر دی ہو۔ آخر کارچوہدری کی سفارش پر پانچ روپے نذر نیاز دلوا کر سقہ کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔ اور بھی ایسے بے شمار واقعات ہمیشہ ظہور میں آتے رہتے ہیں جو پولیس اور چوہدریوں کی مہربانیوں کے باعث ہوتے ہیں۔

آخر کار میں نے گزارش کی اور تجویز پیش کی کہ گورنمنٹ کو چاہیے کہ ہر تحصیل میں مکمل کارخانہ لگائے جو روئی پیلنے، دھاگہ بنانے اور بننے کا ہو جس کی وجہ سے ملک کے بے کارنوجوانوں کو روزگار مل جائے گا۔ سرکار خام مال ولایت لے جانے اور پھر وہاں سے کپڑا بن کر آنے کے اخراجات سے بچ جائے گی۔ آخر میں میں نے چند اور گزارشات اور شکایات اپنی مجبوری اور بے بسی کی حاضرین جلسہ کے گوش گزار کیں۔

پس میری اس تقریر کے بعد تحصیل دار صاحب بڑے جوش اور غصہ سے یوں فرمانے لگے، بڑے افسوس کا مقام ہے کہ جب کبھی تحصیل یا علاقہ میں اس طرح کا جلسہ کیا جاتا ہے تو باہر کے غیر ذمہ دار اشخاص ایسے ایسے ٹیڑھے اور الٹے سوالات کرتے ہیں جو کہ سراسر ہماری طاقت و امکان سے باہر ہوتے ہیں۔ بس اس کے بعد چند ایک چوہدری صاحبان سے علاقے میں روشن دان اور کھاد کے گڑھوں کی بابت دریافت کر کے جلسہ برخواست کر دیا۔ میری اس تقریر کا اثر جو حاضرین پر ہوا ہو گا وہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن میرے لیے ایک قطعہ زمین کا حاصل کرنے میں سد راہ ضرور ہوا جس کی امید میں میں نے درخواست دے رکھی تھی، جو زیادہ جی حضوریوں کو دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2