شمع پھول یا شمع فضول


ہم کوئٹہ کی شدید سردیوں سے بچنے کو ہمیشہ دسمبر سے مارچ تک کراچی جا بستے ہیں۔ میں نے کم و بیش بارہ سال قبل جمشید روڈ کی حیدرآباد کالونی میں ایک فلیٹ لے رکھا ہے۔ جہاں ہر سال سائبیریا کی ٹھنڈی ہواؤں سے بچنے کو پناہ لی جاتی ہے۔

جوانی میں کچھی پاڑہ لیاری میں تایا ابو کے گھر رہا کرتا تھا اُن دنوں لیاری اتنا گنجان آباد نہ تھا۔ کُھلے کُھلے روشن ہوادار مکانات اور کھیل کے میدان ہوا کرتے تھے۔

ڈھاڈر اور پھر لیاری کے کشادہ مکانوں میں زندگی گزری تھی، تو شادی کے بعد پہلی بار جب سردیاں گزارنے اِس چھوٹے سے فلیٹ میں رہے تو بڑا عجیب عجیب لگتا۔

فلیٹس میں پرائیویسی کا سوچنا بھی محال تھا۔ چھوٹے چھوٹے بلند و بالا قطار اندر قطار فلیٹس۔ باتھ روم کے روشن دان سے کھڑے ہوتے سمے سامنے والوں کے دادا ابو کو اپنی بالکونی میں بنیان پہنے کھڑے با آسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ کچن کی کھڑکی کے نظارے تو اچھے خاصے شریف انسان کو بھی کک بنا دیتے۔

ان دونوں میری بیگم نے جی بھر کر آرام کیا۔ بیٹے ریزیڈنشل کالجز میں داخل کروا رکھے تھے اور بیٹی کی نعمت سے اللہ پاک نے میرے کرتوت دیکھتے ہوئے نوازا ہی نہیں تھا، تو میں بھی نئے نئے پکوان پکانا سیکھتا اور بیگم کے ساتھ چپاتیاں بنوانے کے بہانے روٹیاں کم اور آنکھیں زیادہ سیکھتا۔

فروری میں کراچی کا موسم گرم ہو جاتا ہے تو سامنے والی رو میں نیچے والے فلیٹس کے کچنز میں دوپٹے کی قید سے آزاد، پسینے میں شرابور حسینایں آس پاس موجود مجھ جیسے ٹھرکیوں کی موجودگی سے بے نیاز روٹیاں بیلتیں، سالن میں چمچ گھماتیں اور میں نظریں۔

کراس وینٹیلیشن کا خیال رکھتے ہوئے فلیٹس کے صدر دروازے بند نہ کیے جاتے، بس جالی کے دروازے کو کنڈی لگا دی جاتی۔ ہمارے سامنے کے فلیٹ میں شمع گبول نامی شوخ و چنچل بیوہ اپنے دو عدد بچوں کے ساتھ رہتی، اکثر فلیٹس والے یا تو اُس کے حسن سے جلتے تھے یا پھر اُسکی بے باک ادائیں پسند نہ تھی کیونکہ دوسری خواتین کو ہمیشہ اُس کا نام سن کر منہ بناتے ہی دیکھا تھا۔

میں چونکہ سرکاری ملازم ہوں، تو تین ماہ دفتر سے فرار ہو کر کراچی میں وقت گزارنا کچھ مشکل نہ تھا۔ پہلے پہل تو بازاروں، پارکوں، پرانی نئی کتابوں کے اسٹالز پر ٹائم پاس کرتا رہا مگر پھر شمع گبول جیسی ملنسار، ہنس مکھ پڑوسن کے سامنے کراچی کے بازار پھیکے لگنے لگے۔ شمع گبول دل کی بہت اچھی خاتون تھیں۔

وہ کراچی کی روایات کے برخلاف جب بریانی حلیم پائے یا نہاری بناتیں تو پلیٹ اٹھا کر ہماری جالی پر آ کھڑی ہوتیں۔ اکثر میری بیگم وہ سوغات وصول کرتیں اور اُن کے ساتھ شمع بھی ہمارے تاریک گھر کو روشن کرنے آ جاتی۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ جب وہ کچھ دینے آئیں تب ہماری بیگم صاحبہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھیں تو نذرانہ میں نے وصول کیا۔

شمع نے بیگم کا پوچھا اور میرے بتانے کے باوجود کچن تک میرے ہم رکاب رہی۔ پھر نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہونے لگا کہ جب بیگم سو رہی ہوتی ہیں تب ہی وہ کچھ نہ کچھ دینے یا مانگے آ تی ہے۔

ہماری بیگم ذرا بھی شکی مزاج نہیں وہ اگر مجھے شمع گبول سے علم ادب، سیاست، سیاحت، عاشقیہ شعر شاعری اور منٹو کی بے باکی پر گفت شنید کرتے دیکھ بھی لیتیں تو اُن کے جانے کے بعد صرف اتنا پوچھتیں ”یہ آپ شمع فضول کے ساتھ کیا فضول باتیں کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ “

” ارے بیگم سن لے گی، کیا اول فول بکتی رہتی ہو۔ تم شمع پھول بھی تو بول سکتی ہو“ میں دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہتا۔

”شمع گبول ہو، فضول ہو یا پھول، مجھے کیا لینا دینا۔ “ وہ تپ کر جواب دیتیں۔

یونہی تاڑنے تُوڑتے وقت کا احساس ہی نہ ہوا اور ہمارے واپس کوئٹہ واپس جانے کا ٹائم آ گیا۔ دو دن پہلے ہم نے واپسی کی تیاری شروع کی، برتن، پردے اور چادریں دھو دھلا کر الماریوں میں رکھیں۔ فلیٹ کی ہر کھڑکی، روشن دان بند کیا تا کہ کبوتر سارا سال ہمارے فلیٹ کو اپنا ڈربہ سمجھ کر افزائش نسل نہ کرتے رہیں۔

واپسی سے ایک روز قبل عصر سے کچھ پہلے شمع پھول ہمارے لیے اسپیشل نہاری بنا کر لائیں اور بیگم صاحبہ کے ساتھ کافی دیر ٹی وی لاونج میں بیٹھ کر اپنی شادی سے بیوگی تک کی کہانی سنائی۔ میں بیڈ روم کا کارپٹ لپیٹ کر رکھ رہا تھا تا کہ مٹی سے بچایا جا سکے کیونکہ اب فلیٹ نے آٹھ نو ماہ بند رہنا تھا۔ جب ہی شمع گبول نے میرے کانوں میں کھولتا سیسہ انڈیل دیا۔

”باجی میرے بڑے بھائی کا نام بھی وسیم تھا بالکل اِن جیسے مہربان اور شفیق انسان تھے اللہ بخشے چند سال ہوئے موٹر سائیکل حادثے میں فوت ہو گئے۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ مجھے آپ کے شوہر میں اپنے مرحوم بھائی نظر آتے ہیں“ وہ آنسو پونچھتے ہوئے بتا رہی تھی۔

میں نے یہ سن کر کارپٹ زور سے فرش پر پٹخا۔ گرد کا ایک طوفان اٹھا اور وہ کھانستی کھانستی اپنے گھر کو بھاگی۔ اُس کے جانے کے بعد بیگم نے جلدی جلدی ٹی وی لاونج میں جائے نماز ڈالی اور عصر کی نماز ادا کرنے لگیں۔ میں بھی شرمندہ شرمندہ اٹھا، وضو کیا اور بیگم کے ساتھ جائے نماز بچھا کر نماز کو کھڑا ہوا۔ بے بیگم صاحبہ نے فوراً دم نماز توڑی اور بولی۔

”توبہ توبہ کیا میاں بیوی ایک ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ “

”بالکل نہیں پڑھ سکتے۔ تم ایسا کرو شمع فضول کے گھر جا کر پڑھو اور اُسے یہاں بھیج دو دونوں ایک ساتھ پڑھ لیں گے“ میں نے تپ کر جواب دیا۔ بیگم نے زور دار قہقہہ لگایا کیونکہ وہ میرے تپنے کی وجہ جانتی تھیں۔

آج بھی جب ہم ساتھ ساتھ نماز کو کھڑے ہو تو شمع گبول کو یاد کر کے ہمارے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).