لال لال لہر اگیا


قوم کو مبارک ہو! لاہور سمیت ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لال لال لہرا گیا، قوم کے جوانوں نے نعرے بھی خوب لگائے، تقریریں بھی ہوئیں اور ”طلبا یکجہتی مارچ“ کا نتیجہ کیا نکلا؟ اک اور تنازعہ، ایک اورلڑائی، ایک اورایف آئی آر، ایک اور درخواست ضمانت۔

خاکسار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ”طلبا یکجہتی مارچ“ میں طلبا کے مسائل سے متعلق امور پر تقاریر کی بجائے مخصوص اداروں کوباربار نشانہ بنا کر تضحیک آمیز انداز میں ان پر تنقید کا جواز کیا تھا؟ ایک جملے میں اگر بیان کیا جائے تو عالمگیر وزیر کا شکوہ یہ تھا کہ ان کے ہاتھوں میں قلم کی بجائے بندوق تھما دی گئی۔ یہ شکوہ عالمگیر وزیرکوپنجاب کے دل لاہور کی دھرتی پر کھڑے اس وقت یاد آیا جب لاہور ہی کا ایک منتخب رہنما یہاں کے تعلیمی اداروں کے دروازے اس کے قبیلے کے نوجوانوں پر عرصہ پہلے کھول چکا تھا۔ پھر یہ شکوہ چہ معنی دارد؟ نتیجہ کیا ہوا؟ عالمگیر وزیر گرفتاراور اب جن کے دلوں میں سرفروشی کی تمنا تھی وہ پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے بھتیجے عالمگیر وزیر کی ضمانت کی درخواست لئے عدالتوں میں پھر رہے ہیں۔

دقّت یہ ہے کہ کسی بھی معاملے پر جب کوئی موقف ہم اپناتے ہیں تو اسی معاشرے سے اس موقف کا مخالف طبقہ دلیل کی بجائے طعن و تشنیع اور کفر و شرک کا فتوی ارزاں کرتا ہے اوردلیل کی بنیاد پر مکالمے کی بجائے یہ فتوی بازی معاشرے میں انتشار کا سب سے بڑا سبب ہے۔ خاکسار کا معاملہ یہ ہے کہ لال لال کہنے والوں کی تو اپنی ”بوتھی“ لال ہوئے تین عشرے گزر گئے یہ صدیوں پرانا فیشن ان جوانوں نے کیسے اپنا لیا جو روس کی تباہی کے وقت پید ا بھی نہیں ہوئے تھے۔ معاملہ تو کہیں فیض کی مزاحمتی شاعری سے شروع ہواتھا۔ کیا فیض کی شاعری صرف طلبا یونین کے گرد گھومتی ہے؟

اک تیرمیرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے، ستر برس کا وہ بوڑھا پروفیسرفیاض احمد حسین، جس نے اپنے شاگردوں میں کبھی کوئی فرق روا نہ رکھا۔ ہمیشہ کہا کرتے ”طالب علم کے حقوق کا استاد سے بڑا محافظ بھی کوئی ہوتا ہے؟ “ میرا ایک دوست کلاس فیلو جو جج کے مقدس منصب پر فائز تھا، دفتری امور کی انجام دہی میں اس کی حاضریاں کم پڑگئیں تو اسے پیپر سے نکال باہر کیا۔ نصف گھنٹے تک وہ ہاتھ باندھے کمرہ امتحان سے باہر کھڑا رہا۔

آخر کار میں نے درخواست کی سرکچھ مہربانی کریں۔ چھڑی ہاتھ میں لی اور کہا ”جاؤ راپنی جگہ جا کر بیٹھ جاؤ“۔ کچھ دن گزرے کہ استاد محترم نے داعی اجل کو لبیک کہا تو وہی جج اس وقت تک قبر پر کھڑا رہا جب تک استاد محترم کو سپرد خا ک نہیں کردیا گیا۔ صرف اس لئے کہ اسے کسی قسم کی نا انصافی کا شائبہ تک نہ تھا۔ افسوس نہ علم کی وہ تڑپ رہی نہ استاد کا وہ احترام اور نہ ہی شاگردکے لئے وہ لگن۔

طلبا یونین کی بحالی کے نام پر لال لال لہرانے والوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ سوشل ازم یا مارکس ازم کس بلا کا نام ہے۔ طلبا یکجہتی مارچ کے رہنماؤں میں سے ایک محترم حیدر بٹ صاحب کو فون کیا! بھائی طلبا یونین کی بحالی کا مطالبہ تو سمجھ میں آتا ہے یہ فرمائیے لال لال کیا ہے؟ جو اب تھا ”سر میں فیملی کے ساتھ بیٹھا ہوں آپ آدھے گھنٹے تک فون کر سکتے ہیں“۔ حیرت کے سمندر میں گم ہوں کہ جو شخص شہر کی سڑکوں پر کیمروں کے سامنے پوری قوم کو دکھا کر نعرے لگا رہا ہے اسے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر چند منٹ کے لئے اس موضوع پر گفتگو کرنے میں کیا امر مانع ہے؟

محترمہ عروج اورنگزیب صاحبہ سے رابطہ کیا۔ تعارف کے فورا بعداصرار فرمانے لگیں آپ عالمگیر وزیر پر بات کیجئے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے، ہم وکیل صاحب کے ساتھ بیٹھے ہیں ان سے بات کیجئے، اس ایشو کو اٹھائیے۔ ملک کی قدیم ترین جامعات میں سے ایک پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں گریجوایشن کرنے والی محترمہ کو یہ تک نہیں معلوم کہ میڈیا ان کی ڈکٹیشن پر تو چلنے سے رہا۔ پوچھا طلبا یونین کا تصور کیا ہے آپ کے ذہن میں فرمانے لگیں ہمیں ہاسٹل میس، یونیورسٹی داخلوں، فیسوں اور اسی طرح کے دوسرے معاملات طے کرنے کے لئے کمیٹیوں میں شامل کیا جائے۔

موصوفہ کے گوش گزار کیا کہ ہاسٹل میس تو طلبا پر مشتمل کمیٹیاں ہی چلاتی ہیں۔ فسطائیت سے بھرے حتمی لہجے میں محترمہ نے فرمایا کہ ہمیں یہ ٹکڑے نہیں چاہئیں، ان معاملات کو عوامی کیا جائے۔ لیکن کرنا کیا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔ طلبا یونین بحال ہوں گی تو ہم اپنا منشور لائیں گے۔ مطلب ابھی تک آپ کے پاس منشور ہی نہیں ہے؟ فرمایا ”میں نے یہ تو نہیں کہا“ اگر یہ نہیں کہا تو لائحہ عمل تو بتائیے قوم کو۔

مطلب کوئی کام ڈھنگ سے نہ کرنے کی قسم ہم نے اٹھا رکھی ہے۔ سماجی مسائل پر سائنسی انداز میں تحقیق کرنا اور ان کا حل نکالنا دنیا بھر میں قوموں کا شیوہ ہے لیکن ہم ہیں کہ دو انتہاؤں پر بسنے والی قوم ہیں۔

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

ایک نعرہ لگاتا ہے جب لال لال لہرائے گا، دوسرا فلگ شگاف آواز بلند کرتا ہے سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے۔ ایک اگر بھلے انداز میں آرٹ کی زبان میں طالب علم پر دوہرے تہرے بوجھ کو ڈرامائی تشکیل میں بیان کرتا ہے تو دوسرا فورا اسے بے حیائی اور کنجر خانے سے تعبیر کرتے ہوئے اس میں سے صیہونی سازش نکالتے ہوئے اسے نہرو یونیورسٹی کی نقل قرار دے کر فیس بک پر پوسٹس لگانے چڑ ہ دوڑتا ہے۔ خدا کے بندو! ایک سماجی مسئلے کو اجاگر کرنے میں کون سی بے حیائی اور سازش ہے؟ ۔ جن جامعات میں دلیل اور فلسفے کی بنیاد پر مکالمہ کی فراوانی ہونی چاہیے وہیں پر دلیل اور فلسفے کا گلا دبایا جارہا ہے۔ دنیا سو برس آگے نکل چکی ہم قوم کو سو برس پیچھے کی طرف کھینچ رہے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ ایشیا کے اپنے رنگ ہیں اور سرخ سبز کے علاوہ بھی اس میں کئی خوشنما رنگ ہیں۔

طلبا یونین کا جو تصور پاکستان میں رائج ہے وہ سیاسی جماعتوں کے بغل بچوں کا ہے۔ اس صورت میں تو طلبا یونین کو ہر گز بحال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہجوم کے انصاف کی حمایت نہیں کی جاسکتی توچند سو یا چند ہزار کے ہجوم کے کہنے پر طلبا یونین کو بھی بحال نہیں کیا جاسکتا۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے شاندار تعلیمی اداروں کا بیڑہ غرق کرنے اور تعلیمی اداروں میں تشدد کو پروان چڑھانے میں طلبا تنظیموں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان پر پنجاب یونیورسٹی میں تشدداور ڈنڈہ ڈولی کر کے جامعہ سے باہر پھینکے جانے کے مناظر ابھی اس قوم کو بھولے تو نہیں۔ کالجز اور جامعات میں جہاں بھی جس طلبا تنظیم کا قابو ہوتا ہے ہاسٹل میں کمروں کی الاٹمنٹ، میس پر قبضہ اور من مانیاں، معمولی باتوں پر کلاسوں کا بائیکاٹ اور جامعات کی بندش اس تنظیم کے لئے ایک کھیل بن کر رہ جاتا ہے۔ دوہزار سترہ کے آخراور دوہزاراٹھارہ کے اوائل میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ہونے والے ہنگاموں کے باعث طلبا و طالبات کا کس قدرتعلیمی نقصان ہوا کیا کسی کومعلوم ہے؟ سیاسی جماعتوں کے طلبا ونگ تو چھوڑیئے اب پنجابی، سرائیکی، پشتون، سندھی اور بلوچ شناخت پر طلبا تنظیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ یعنی یکجہتی کی بجائے انتشار در انتشار۔

بعض سیاستدانوں نے جو یہ پٹی قوم کو پڑھارکھی ہے کہ طلبا یونین سیاست کی نرسریاں ہیں یہ انتہائی گمراہ کن تصورہے۔ ملکی یا قومی سیاست کی نرسری طلبا یونین ہر گز نہیں بلکہ مقامی حکومتیں ہیں جن کو با اختیار بنانے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ طلبا یونین شجر ممنوعہ بھی نہیں ہیں کہ ان کی بحالی سے ملک میں کوئی بہت بڑی خرابی در آئے گی لیکن شرط یہ ہے کہ طلبا یونین کا ایک مربوط اور منظم ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے۔ یہ بات یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ طلبا یونین سیاسی جماعتوں کے اثرورسوخ سے بالکل پاک ہوں اور کوئی بھی طلبا یونین کسی بھی تعلیمی ادارے میں اسلام یا اخلاق کی ٹھیکیدار مت بنے۔ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط قائم رکھنا وہاں کی انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اگر متعلقہ ادارے ہی پوری کریں تو بہتر ہوگا۔

تعلیمی اداروں کے اندرونی نظم میں طلبا کے جو مسائل ہیں ان کو جاننے اور ان کے حل کے لئے طلبا یونین کے قیام میں کوئی حرج نہیں لیکن ستر برس سے طلبا یونین کا جو ایک ڈھانچہ جاتی نظام پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بن چکا ہے اسے بدل دینا دو چار برس کی بات نہیں۔ بات سمجھ میں آتی ہے تو آپ کی نوازش، ورنہ لال لال لہراتے جائیے نتیجہ لال لال ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).