جاؤ گل سما رب کو دکھاؤ اپنے زخم


قبر کشائی ہونے کے بعد پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ گل سما کے چہرے اور گردن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ناک، سر اور اوپری دھڑ پر گہرے زخم ہیں جو مبینہ طور بھاری پتھروں کے لگتے ہیں۔

گل سما محض نو برس کی ہے۔ کیا ہوتے ہیں 9 برس؟ نو برس کی بچیاں زور سے پھول مارے جانے پر رو پڑتی ہیں تو گل سما کا کیا حال ہوا ہو گا جس کو نفرت سے پتھر مارے گئے۔ 21 نومبر کو دادو میں سنگسار کی جانے والی یہ بیٹی آخری سانس لینے سے پہلے کس درد سے گزری ہو گی؟ درد کو بھی چھوڑیں کیا کیا سوال اس کے دماغ میں پیدا نہ ہوئے ہوں گے؟ جب تنے ہوئے چہروں اور بے رحم آنکھوں والے مرد اسے پتھر مارتے ہوں گے۔

”سیپارہ پڑھانے والے حافظ صاحب، گاؤں کی مسجد والے مولوی صاحب، استانی جی، یہ سب تو مرنے کے بعد گنہگاروں کے جہنم میں جانے کی بات کرتے ہیں۔ پھر میرے قبیلے والے مجھے بغیر کسی گناہ کے مرنے سے پہلے کیوں جہنم والی سزا اور خوف کا تجربہ کرا رہے ہیں؟ میرا باپ مجھے کیوں نہیں بچاتا؟ میری ماں کو کیا میری چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہوں گی؟ “

سوچو ظالمو، خدا کو مانتے ہو تو سوچو کہ اگر یہی سوال گل سما نے قیامت کے روز پوچھ لیے تو کیا جواب دو گے؟ کیا منہ دکھاؤ گے؟ خالق کو اور گل سما کو؟ میں نے فرض کیا کہ خدا کو مانتے ہو تو پھر یہ بھی جانتے ہو گے کہ اسی خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ مقتول بیٹی پوچھے گی کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟

نہیں مانتے ہو تب بھی کیا انسان نہیں ہو؟ کیا دل کی جگہ ایک پتھر ہے جو پسیجتا نہیں؟ کیا جانوروں سے بھی گئے گزرے ہو کہ جانور بھی بنیادی ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تم نے گل سما کو کاری (کالی یعنی منہ کالا کرنے والی) قرار دیا اور اسے مار دیا۔ کیوں کہ تم خود بزدل، گلی سڑی روایات کے امین، ناکارہ، اور دل کے کالے ہو۔ تم ہر فطری اور ہمدردانہ احساس کو کچل دیتے ہو کیونکہ تمہیں اپنا قبائلی بندوبست عزیز ہے جس سے تمہارے مفادات جڑے ہیں۔ اس بندوبست سے جڑے مفادات کا لالچ اور اس سے کٹنے کی صورت میں تصوراتی ”ناتوانی“ کا احساس ہی ہے کہ گل سما کا والد اس المیے کو حادثہ قرار دیتا ہے اور جرگے سے لے کر پتھر مارنے والے قاتلوں تک کے لیے ڈھال بننے کی کوشش کرتا ہے۔

تمہارے دلوں کا رنگ حیات بخش سرخ  نہیں، تاریک راتوں جیسا کالا ہے۔ تمہارے نصیب میں اجالا نہیں کیونکہ تم نے اپنے ہاتھوں گل سما جیسے چراغ گل کیے ہیں۔

اور یہ ”تم“ صرف دادو کے اس دور دراز علاقے میں گل سما پر پتھر برساتے چند احساس سے عاری رند قبیلے کے مرد نہیں ہو۔ یہ ”تم“ وہ سب ہیں جو یہاں ظلم کے پشتیبان ہیں، جو ظالم کا ہاتھ مصلحت اور منافقت میں مضبوط کرتے ہیں، جو گھٹیا اور سطحی قبائلی، گروہی، سیاسی، مذہبی تعصبات کی وجہ سے ظالم کو پہچانتے ہوئے بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ اس ”تم“ میں ریاست ہے اور اس کے نام نہاد ستون اور اس کے اہلکار ہیں۔

جاؤ گل سما ہم تو تمہیں کسی پھول کا کفن دینے کی بات بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں رنگوں کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ ہم پھولوں کی پہچان سے عاری ہو چکے۔ ویسے بھی تم قبر سے نکل کر ہمیں ہمارا اصل چہرہ دکھانے آ گئی ہو اور ہمیں ہماری نظروں میں ہی ننگا کر دیا ہے تو ہم تمہیں کیسے اور کیوں ڈھانپیں۔ جاؤ ایسے ہی اپنے رب کو دکھاؤ کہ جسم کی یہ امانت میرے ماں باپ، ان کے قبیلے، ان کے معاشرے اور ان کی قوم نے واپس لوٹا دی ہے کہ یہ ”کاری“ ہے۔ دیکھو تمہارا خالق تمہیں کیا جواب دیتا ہے۔ وہ ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے۔ ڈرو مت وہ تمہاری ماں کی طرح مجبور ماؤں جیسا پیار نہیں کرتا۔ خدا حافظ گل سما!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).