تعلیمی ادارے اور طلبہ تنظیمیں


گز شتہ چند ہفتوں سے شور ہے اور نعرے لگ رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو تنظیم سازی کی اجازت دی جائے۔ پورے ملک میں اس مقصد کے حصول کے لئے احتجاج بھی کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی بیان جاری کر دیا ہے کہ کچھ کر تے ہیں۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے شاہی فرمان جاری کر دیا ہے کہ سندھ میں طالب علموں کو اجازت ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں تنظیمیں بنا ئے لیکن یہ نہیں بتا یا کہ کس قانون اور ضابطہ کے تحت وہ کام کر یں گے۔

ان کا مقصد صرف سبقت لے جانا تھا بس وہ پہل کر گیا، صرف نظر اس بات سے کہ تنظیم سازی کے فوائد کیا ہیں اور نقصانات کیا ہو سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیم سازی کا معاملہ ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔ خود طالب علموں کی اکثریت تنظیم سازی کی مخالف ہے۔ تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اکثر اساتذہ بھی اس کے مخالف ہیں۔ والدین کی اکثریت بھی اس کو وقت کا ضیاع سمجھتی ہے لیکن ملک کی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو تنظیم سازی کی اجازت ہو نی چاہیے تاکہ دوران طالب علمی، تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی تر بیت بھی ہو۔

جو طالب علم، اساتذہ اور والدین تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تنظیم سازی کو فعل بد سمجھتی ہے ان کا مو قف ہے کہ تنظیم سازی طالب علموں کے لئے زہر قاتل ہے۔ اس سے ان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے اور وہ تعلیم کی بجائے کسی سیاسی جماعت کے لئے زندہ باد یا مردہ باد کا بیانیہ سیکھ کر فارغ ہو جاتے ہیں یا تعلیم کی بجائے ان کی تمام تر توجہ سیاسی جماعتوں کے زندہ باد اور مردہ بادکے نعروں پر ہوتی ہے اس لئے طالب علم، تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر معاشرے کا ایک نامکمل فرد بن جاتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں بعض طالب علم، اساتذہ اور والدین کی ایک خاص تعداد تنظیم سازی کے حامی بھی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ تنظیم سازی سے طالب علموں کو غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی غیر نصابی سرگرمیاں اس بات کی عکاس ہو تی ہے کہ طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہو تا ہے تو عملی زندگی میں ان کو آسانیاں ہو تی ہے۔ لیکن جو طالب علم، اساتذہ اور والدین مخالف مو قف رکھتے ہیں اس دلیل پر ان کا جواب یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ماہانہ، سہہ ماہی، شش ماہی، نو ماہی اور سالانہ بنیادوں پر انتظامیہ مختلف تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔

کھیلوں کی سرگرمیاں الگ ہوتی ہیں۔ یہی سب کچھ ان کے لئے کافی ہے۔ طالب علموں، اساتذہ اور والدین کی رائے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کے بارے میں منقسم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثریت نہیں چاہتی کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیمیں ہوں۔ اس کے بر عکس ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو تنظیم سازی کی اجازت ہو نی چاہیے۔ سیاسی جماعتیں کیوں تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی کی حمایت کرتی ہیں؟

اس کے جواب میں وہ افراد جو تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی کی مخالف ہے کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس لئے حامی ہیں کہ ان کو مفت میں افرادی قوت مل جاتی ہے دوسرا یہ کہ ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بچے خود سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھتے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر طلبہ تنظیمیں اتنی ہی فائدہ مند ہیں تو جو مختلف سیاسی جماعتوں کے تعلیمی ادارے ہیں ان میں طالب علموں کو تنظیم سازی کی اجازت کیوں نہیں؟ اس لئے کہ ان نجی تعلیمی اداروں میں امیروں کے بچے پڑھتے ہیں اس لئے وہاں تنظیم سازی ممنوع ہے اور جہاں غریبوں کے بچے زیر تعلیم ہیں وہاں اجازت یہ دوہرا معیا ر کیوں؟

یہ تو متعلقہ فریقین کے اعتراضات تھے جو حقائق پر مبنی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم ما ضی میں پاکستان میں تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ تنظیموں نے طالب علموں کے لئے کو ئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ہاں یہ ضرورہوا ہے کہ انھوں نے مختلف مواقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانیے کوآگے بڑھانے اور ان کے جلسوں اور جلوسوں میں بھر پو ر شرکت کرکے ان کو عوامی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اسی طرح ماضی میں ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں نے طالب علموں اور ملک کو درپیش مسائل کی بجائے مختلف نظریات اورمختلف علاقائی ثقافتوں کو پروموٹ کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اب بھی چند ہفتوں سے طلبہ تنظیموں کی بحالی کے لئے جو تحریک شروع ہوئی ہے اس کی بنیاد بھی طالب علموں کے مسائل اور ان کے حل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظرئیے پر ہے جو پاکستان میں نہ صرف متنازعہ ہے بلکہ اکثریت اس کی مخالف ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو تنظیم سازی کی اجازت ہو نی چاہیے کہ نہیں؟ میرے خیال میں ہونی چاہیے مگر بعض حدود وقیود کی بنیادوں پر۔ طلبہ تنظیمیں صرف طلبہ مسائل کو حل کرنے کے لئے ہو نگی۔ ان کو اداروں میں طلبہ اور ملکی مسائل کے حل کے لئے تقریبات اور مباحثوں کی اجازت ہو گی۔ رہی بات ثقافتی راتیں منانے اور نظریات پر بحث کرنے کی تو ان کے لئے اداروں کی بجائے ان سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں، دفاتر، ہجروں اور دیگر جگہوں کو استعمال کریں جن کی ثقافت کو وہ منانے کے قائل اور جن کی نظریات کو وہ قبول کرتے ہوں۔

پوری دنیا میں یہی اصول لاگو ہے یہاں بھی اس اصول کے تحت طلبہ کو تنظیم سازی کی اجازت ہو نی چاہیے۔ اگر ماضی کی طرح شتر بے مہار اجازت دی جاتی ہے تو اس کا فائدہ نہ طالب علموں کو ہوگا، نہ تعلیمی ادارے ترقی کر سکتے ہیں، نہ استاتذہ کو احترام ملے گا، نہ والدین کے خدشات دور ہوں گے اور نہ ہی ملک کو فائدہ ہوگا۔ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ چند سیاسی خاندانوں اور سیاسی جماعتوں کو وقتی فائدہ مل جائے گا۔ اس لئے بغیر کسی قانون اور قاعدے کے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کی بحالی مزید تباہی کا باعث بن سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جوش اور جذبات کی بجائے ہوش اور تدبر سے اس مسئلے کو حل کیا جائے ورنہ ہم نے اس ملک میں ماضی میں تعلیمی اداروں میں کسی ایک سیاسی جماعت کا جھنڈا لگانے یا اتارنے، کسی ایک کے حق میں زندہ باد کا نعرہ لگانے اور دوسرے کے خلاف مردہ باد کہنے، کسی ایک کا پوسٹر لگانے اور کسی دوسری سیاسی جماعت کا پوسٹر پھاڑنے، کسی ایک کوعلاقائی ثقافت کا دن منانے اور کسی دوسرے کو اجازت نہ دینے پرخون ریزی دیکھی ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی ایک کا تعلق بھی تعلیمی ادارے اور طالب علم سے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).