نقیب اللہ محسود کی قبر تک باپ کا سایہ پہنچ گیا


دکھ کی زرد روشنی میں سائے رقص کر رہے تھے۔ یہ رقص محمد خان کی موت کی خوشی میں تھا۔ مر تو محمد خان اسی روز گیا تھا جب اس کا ستائیس سال کا گبرو جوان بیٹا قتل کیا گیا۔ کینسر تو فقط موت کا بہانا تھا۔ محمد خان کی انصاف کی آس اس یقین دہانی پر قائم تھی جو اس کے یتیم پوتے پوتیوں کو سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے گود میں اٹھا کر کرائی تھی۔ انصاف مگر پھر بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔

چار جنوری دوہزار اٹھارہ کو نقیب اللہ کو سایوں نے موت کا فرشتہ بن کر اس وقت اغوا کرلیا جب وہ ابو الحسن اصفہانی روڈ پر دوستوں کے ساتھ ہنس بول رہا تھا۔ تیرہ جنوری کو راؤ انوار اینڈ کمپنی نے اس نوجوان پر دہشتگردی کا جھوٹا لیبل لگایا اور پھر قتل کردیا مگر خون ناحق چھپ نہ سکا۔ سوشل میڈیا، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پہ بھی حقیقت کھل کر سامنے آگئی، اٹھارہ جنوری کو مقتول کا خاندان صدمے سے سنبھلا تو الزامات مسترد کردیے پھر احتجاج شروع ہوگیا۔ انیس جنوری کو سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لیا تو بیس جنوری کو راوانوار ملازمت سے معطلی کے بعد روپوش ہوگیا یہ روپوشی 21 مارچ تک رہی۔

یکم فروری دوہزار اٹھارہ کو اسلام آباد میں نقیب اللہ کے قتل کے خلاف دھرنا دیا گیا۔ اسی دھرنے کے بطن سے پشتون تحفظ موومنٹ پیدا ہوئی جو پشتون آبادی میں ویسی ہی مقبول ہوئی جیسی اردو بولنے والوں میں کبھی ایم کیوایم ہوا کرتی تھی۔ غلطیاں بھی کم و بیش وہی کیں۔ خمیازہ بھی ایک سا بھگتنا پڑا۔

شہر قائد میں تیرہ جنوری دوہزار اٹھارہ کو ایک اور جیتے جاگتے نوجوان انتظار کو اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں نے مبینہ طور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جینے کی امنگ، ولولہ سب والدین کے ارمانوں کے ساتھ پیوند خاک ہوگیا۔ بوڑھی اور اشکبار آنکھیں اب بھی انتظار کے لیے انصاف کا انتظار کرتی ہیں۔

رواں سال انیس جنوری کو ساہیوال میں بھی دلخراش سانحہ ہوا۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ایک گاڑی پر اندھا دھند گولیاں چلائیں، اس مقابلے میں تیرہ سال کی بچی والدین اور ڈرائیور لقمہ اجل بن گئے۔ بچ جانے والے ننھے اور یتیم بچوں نے والدین کے قتل کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ ششدر کھڑے تھے۔

یہاں بھی مقدمے کی کمزور پیروی آڑے آگئی عدالت نے ملزمان کو بری کردیا۔ ڈرے سہمے لواحقین نے فیصلے پہ سر تسلیم خم کرنے میں ہی عافیت جانی۔ اسی طرح جس طرح کراچی میں رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کیے گئے سرفراز کے ورثا نے قتل کو قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر شکر کرلیا تھا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماج میں طاقتوروں کا ناجائز اقدام کمزور پیروی اور قانونی موشگافیوں کی بدولت سند جواز پاتا ہے یا قابل گرفت قرار نہیں ٹھہرتا۔ کتنے ہی ایسے مقدمے وقت کی دھول میں گم ہو جاتے ہیں۔

اسی بے فیض اور بے ثمر نظام میں خون ناحق بہتا دیکھ کر فیض نے کہا تھا

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں

نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں

نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوں بہا دیتے

نہ دیں کی نذر کہ بیعانۂ جزا دیتے

نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا

کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا

پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو

کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا

یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

کہتے ہیں انصاف میں تاخیر نا انصافی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے عہد میں یہ اور بڑی بے انصافی ہے۔ جن معاشروں میں عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا وہاں انتشار جنم لیتا ہے۔ اپنوں میں افراتفری پھیلتی ہے تو غیروں کے لیے تفریح بن جاتی ہے۔ کینہ پرور ہمسائے ایسے موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں اور نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نکلتا ہے

صدیوں پہلے موسی کے عہد میں ایک قتل ہوا تھا۔ مقتول کی لاش معاشرے کے سامنے سوالیہ نشان بنی پڑی تھی۔ قاتل خود انصاف کی دہائی دے رہا تھا۔ معاملہ وقت کے نبی کے سامنے آیا۔ حکم ہوا کہ گائے کے جسم کا ایک ٹکڑا مقتول کو لگایا جائے۔ حکم سیدھا اور سادہ تھا۔ صرف گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا لگانا تھا۔ مین میخ نکالنے والوں نے بے محل سوالات شروع کردیے۔ گائے کیسی ہو، کس رنگ، عمر کی ہو وغیرہ وغیرہ۔ ہر سوال کا شافی جواب آیا۔ یوں وہ گائے خریدنا اور زبح کرنا ہی پڑی جو بے تحاشا قیمتی تھی۔ اس گائے کے گوشت کا ایک حصہ مقتول لگایا گیاوہ یہ بتانے کے لیے جی اٹھا کہ قتل کس نے اور کیوں کیا۔

آج بنی اسماعیل کی آبادیوں میں ایسی ہی لاشیں پڑی ملتی ہیں مگر وہ طریقہ سجھائی نہیں دیتا کہ مقتول خود زندہ ہو کراپنے قاتل کو بے نقاب کرسکیں۔ جن معاشروں میں مقدس گائے کی پوجا کی جاتی ہو وہاں ایسا ممکن بھی کیسے ہوسکتا ہے۔ انصاف کے پیمانے ادھورے ہوں تو قاتل سزاوار نہیں ٹھہرتے۔ جب انصاف کا چلن ہی نہ ہو تو بدچلنی بنا چاپ کے چلتی ہے۔

نیم آمریت کے اس عہد پر جارج آر ویل کا ناول اینیمل فارم صادق آتا ہے۔ زمان و مکان کے فرق کے باوجود جمہور دشمن قوتوں کی سوچ فکر اور عمل ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے۔ ظالموں اور مظلوموں کے درمیان یہ کش مکش ہر دور میں جاری رہتی ہے۔ اینیمل فارم کے ”سنو بال“ کی طرح باڑے کی سیوا کرنے والوں پر اپنے ہی باڑے کی زمین تنگ ہوجاتی ہے اور کوئی ”نپولین“ غاصبوں سے ساز باز کرکے باڑے کا ہی سودا کرلیتا ہے۔

مظلوم پیوند خاک ہوجائیں اور ان کے لیے انصاف کی طلبگار آواز بھی خاموش ہوجائے تو سائے اسی طرح جشن مناتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ آہ کو اثر ہونے تک اک عمر تو چاہیے ہوتی ہے مگر لگ جائے تو رقص پھر ماتم میں تبدیل ہوجاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).